آج کی تلخ حقیقت
از قلم: عیان ریحانؔ
تم اور میں جب بیوی اور شوہر تھے، تو نہایت ہی معتدلہ
زندگی چل رہی تھی۔ نہ مجھے تم پر کوئی سبقت تھی نہ تمہیں مجھ پر۔
پھر ۔۔۔۔
ایک روز تم ماں بنی اور میں باپ بنا۔
تم نے گھر کا نظام سنبھالا اور میں نے باہر کا۔
اور پھر تم۔۔۔
"گھر
سنبھالنے والی ماں" بنی اور میں
"کمانے والا باپ بنا"۔۔۔۔
جب بچوں کو چوٹ لگتی تو تم گلے لگاتی اور میں سمجھایا کرتا۔
اور پھر تم۔۔۔
"محبت کرنے والی"
ماں بن گئی اور میں " صرف سمجھانے والا باپ" بنا۔۔
بچوں نے جب غلطیاں کیں تم نے ان کی حمایت کی اور تم " بچوں کو سمجھنے والی ماں بن گئی" اور میں ڈانٹ کر "نہ سمجھنے والا" باپ بنا۔۔۔۔
'ابو ناراض ہوں گے' یہ کہہ کر تم اپنے بچوں کی"دوست " بن گئی۔۔۔ اور میں "دشمن"
باپ بن کے رہ گیا....
تم سارا دن بچوں سے باتیں کرتے ہوئے بچوں کے"
ذہنوں میں گھر "کرتی چلی گئی۔۔۔
اور میں کمانے کے چکر میں وقت نہ دے کر گھر کا مستقبل
بناتے بناتےبچوں کے "ذہنوں سے دور"
ہوتا چلا گیا۔
تمہارے آنسوؤں میں "ماں کا پیار" نظر آنے
لگا اور میں آنسو نکال بھی نہیں سکتا تھاجس وجہ سے "پتھر دل" با پ بن گیا۔۔۔۔
تم بچوں کے
لئے "چاند کی چاندنی" بنتی چلی گئی اور میں سورج کی طرح "آگ اگلتا
باپ "بن گیا۔۔۔
تم ایک "رحم دل اور شفیق ماں" بنتی گئیں
اور میں سب لوگوں کی زندگی کا بوجھ اٹھانے والا صرف ایک "مصروف باپ" بن
کر رہ گیا۔
اور جب ان سارے نظریات پر نظر دوڑائی تو ہر جگہ تم
بچوں کے ذہن میں اونچائیاں حاصل کرتی چلی گئی اور میں زمین بوس ہوتا چلا ۔ نہ کسی نے میرے مصائب
دیکھےنہ سمجھے اور معذرت، یہی آج کے زمانے
کی عمومی تلخ حقیقت ہے۔
bahut hi sahi kaha
जवाब देंहटाएं