Qalam Meri Taqat

Stories, Poetries, Poems, News, How to..., Tools, Quotes, Stanza and many more...

Qalam Meri Taqat

Welcome

शनिवार, 5 फ़रवरी 2022

Ahmad to kal rat yahi tha (احمد تو کل رات یہیں تھا)

احمد تو کل رات یہیں تھا

ایک ایسا درد جو ہم دوسروں کانہیں سمجھ پاتے 



 از قلم:عیان ریحانؔ

نیند کھل نہیں رہی تھی ۔ دیر رات احمد سے کھٹی میٹھی باتیں سن کر سویا تھا بیچارے نے فیس بک پر ایک عالیشان ہوٹل میں کھاتے ہوئے کی خود کی تصویر ڈالی تھی جس پر  میں نے  کمینٹ کر دیا تھا " واہ بھائی زندگی کے اصل مزے تو تو ہی لے رہا ہے" بس اتنی سی ہی بات تھی اور پھر رات بھر (میں کیسا ہوں، کس حال میں ہوں، میرے ساتھ کیا ہو رہا،کیسی بدتر حالات سے زندگی گزر رہی، ہوٹل کیوں گیا تھا، میرے کپڑے کی رنگت نہیں دکھی تجھے؟ میں زندگی کے مزے کر رہا ہوں؟  ارے  میں وہاں ویٹر بنا بیٹھا تھا میں نے تو بس  دل کو تسلی دینے کے لئے فوٹو کیا لے لی تجھے میرے مزے دکھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ) سناتا رہا  اور میں خموشی سے سنتا رہا۔ بد قسمتی سے آج میں اپنے روزانہ کے معمول کے مطابق رات کو موبائل بھی چارج میں لگانا بھول گیا تھا اور  جس وجہ سے میرا موبائل بھی 1 پرسنٹ  پر اپنی آخری سانسیں گن رہا تھا، بمشکل اسکرین آن تھا اوررررررر۔۔۔۔  یہ کیا میرے اس دھوندھلے سے اسکرین پر ایک میسج رو نما ہوا اور جیسے ہی میں نے اسے کھولا میرے تو ہوش اڑ گئے۔میں جس پرائیوٹ کمپنی میں کام کرتا تھا اس کمپنی نے نقصان میں چلنے کے سبب ورکرز (مزدور)کی تعداد کو کم کرنے کی خاطر بغیر کسی نوٹس کے مجھے کمپنی سے نکال دیا تھا۔۔۔۔ 

میسج دیکھ کر میرے تو ہوش اڑ گئے تھے۔میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں اب کیا کروں گا۔  یہ ۱۵ ہزار کی نوکری میری لڑکھڑاتی زندگی کا سہارا تھی اور اس نوکری نے اس طرح  یکایک سے مجھے بیچ سڑک پر لا کھڑا کر دیا تھا۔

بد حواسی کی حالت میں میں نے مینیجر کو فون کرنے کے لئے  نمبر لگایا ہی تھا کہ بیٹری نے  بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ بالآخر کسی طرح موبائل کو گھر پر چارج میں لگا چھوڑ روزانہ کی طرح میں ناشتہ کرنے کے لئے ٹاٹ کے بنے ہوٹل کا رخ کیا،  سورج اپنی بلندی پر تھا۔  آج اٹھنے میں بھی کافی تاخیر ہو گئی تھی اور پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ہوٹل والے معمول کے مطابق  وقت پر ناشتہ کروا کر ہوٹل بند کر کے گھر کو جا چکے تھے۔ گاؤں کا اکلوتا ہوٹل تھا  اسلئے کوئی آپشن بھی نہیں بچے تھے۔  بسکٹ کھا کر میں نے بھوک کی شدت کو کم کیا اور پھر اسی حالت میں کمپنی کا رخ کر لیا کہ شاید کچھ مسئلہ حل کر سکوں۔ کسی طرح کمپنی پہنچا   وہاں پہنچ کر جب مینیجر کو تلاش کیا  تومعلوم پڑا کہ میرے جیسےاور 50 لوگ مینیجر کی خوشامد میں لگے تھے جو کہ مجھ سے بہتر کار کردگی کرتے تھے مگر فی الوقت ان کی بھی یہی حالت تھی اور مینیجر صاحب اپنے فیصلے سے ذرا بھی اڈگ ہوئے بغیر سب کی التجاء  کو ٹھکرا کر گھر کو جا چکے تھے۔ 

حالات سے گھبرا اورنا امید ہو کر بھوکا پیاسا، تھکا ہارا گھر کو واپس ہوا مگر یہاں شاید قسمت کو ابھی اور کھیل کھیلنا باقی تھا ۔ بد حواسی میں میں نے نکلتے وقت گھر کو کھلا ہی چھوڑ دیا تھا نتیجتاً جب گھر کو دیکھا تو کپڑے سامان وغیرہ فرش پر بکھڑے پڑے تھے۔ ضروری کاغذات سے بھری بیگ  جس میں میرے ٩ ہزار روپے رکھے تھے،سامنے چارج میں لگا  موبائل مع چارجر میرے کمرے سے غائب تھا۔ 

اب تو میرے قدم بھی زمین پر نہیں ٹک رہے تھے حالات ایسے ہو گئے تھے کہ میں بیان نہ کر سکوں۔ بھوک سے تڑپتا پیٹ، نوکری جانے کا صدمہ، ضرورت میں کام آنے کو استعمال کرنے کے لئے رکھے روپےاور میری زندگی کے سبھی اہم کاغذات  گویا مجھے منہ چڑا رہے تھے اور میں بدحواس سا  کسی کو اپنے غم کی داستان بتانے سے بھی قاصر اپنی حالات پر خود ہی آنسو بہا اور پونچھ رہا تھا۔ نہ کوئی پُرسان حال تھا اور نہ شریک غم۔ بھوک سے بلکتا، بدحواسی میں گم، خود کو کوسے جا رہا تھا تبھی اچانک سے مجھے کچھ یاد آیا میں نے جلدی سے موبائل نکالنے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا مگر موبائل تو نہیں جیب میں پڑے کچھ سکے نے کھنکھناتے ہوئے آواز دی۔  جلدی سے میں نے دروازہ لگایا دو مرتبہ اچھی طرح دروازہ چیک کیا اور پھر  بازار کے لئے تقریباً تین کیلومیٹر کے سفر کو نکل پڑا۔شام کا وقت ہو چکا تھا تیز تیز قدموں سے بازار پہونچا اور بنا وقت گنوائے ایک سائبر کیفے میں اپنی سیٹ لےکر بیٹھ گیا۔ در اصل آج میرا ایس۔ایس۔ سی۔ کا رزلٹ آنا تھا اور جس میں مجھے قوی  امید تھی کہ میں اسے پار کر جاؤں گا۔ میں نے  اپنی یادداشت سےاپنا ڈٹیل سائبر والے کو بتایا مگر سرور کام نہ کرنے کی وجہ مجھے انتظار کرنے کو کہا گیا۔۔۔ اس بد حواسی اور بے چینی کی حالت میں انتظار کرنا  میرے لئےکتنا مشکل تھا وہ میں لفظوں میں بیان نہیں کر سکتااُس وقت اُسے صرف میں ہی محسوس کر سکتا تھا بقیہ لوگ تو صرف دھکے دینے اور سائڈ کروانے پر لگے تھے۔بالآخر ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد  جب سرور کام کرنے لگا تو انہوں نے میرا  رزلٹ مجھے تھمایا میں نے دس روپے کا سکہ انہیں دیا اور سیدھا سائبر کے باہر آ کر سڑک کے کنارے جگہ لی ۔ خالی جگہ  دیکھ کر  وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔ صرف دو نمبر سے میں فیل ہو گیا تھا میری ساری امیدیں ختم ہو چکی تھیں۔ میں اپنا سب کچھ کھو چکا تھا۔ کاٹو تو خون نہیں والی میری حالت تھی۔  نہ عمر کا لحاظ کیا نہ عزت کی پرواہ  ، صبر کا دامن چھوڑ کر میں وہیں بلک بلک کر رونے لگا اور روتے روتے کب زمین  پر گرا مجھے معلوم نہیں ۔  جب ہوش آیا تو میں نے خود کو ایک ہوٹل کے کچن روم میں پایا۔ زمین پر لیٹے لیٹے  ہی میں نے  جب نظریں ادھر اُدھر دوڑائی تو  میرے ارد گرد نہایت ہی گندے قسم کے کپڑے میں ملبوس چند لوگ ہوٹل میں گندی ہوئی پلیٹ کو صاف کر رہے تھے اور سبھی کی زبان پر 'برتن اب سے یہی دھلے گا میں نہیں، ٹیبل صاف بھی اسے ہی کرنا ہے، جھاڑو اور پونچھا بھی اسی سے لگوائیں گے' وغیرہ کا چرچہ زور شور پر تھا۔میں ڈر کر وہاں سے   اٹھ کر بھاگنا چاہا اور بھاگتے ہوئے ہوٹل کے اندرونی حصے میں پہونچ گیا جہاں ایک خوبصورت ٹیبل سے میری ٹکر ہوئی اور میں وہیں رک گیا۔ مجھے ایسا لگا  جیسے کہ میں نے پہلے بھی اسے دیکھا ہو اور پھر  اس دوست کی وہ رات والی تصویر میرے ذہن میں گردش کرنے لگی میں بے ساختہ چلانے لگا  "احمد تو  کل رات یہیں تھا، احمد تو  کل رات یہیں تھا" پھرجیسے ہی امی کی تھپڑ پڑی میری آنکھیں کھل گئںئ،  میں خواب کی دنیا سے باہر آ کر سب سے پہلےاپنا   موبائل چیک کیا پھر مسکراتے ہوئے  میں نے راحت کی سانس لی  اور کروٹ بدل کر دوبارہ سے سو گیا۔

٭٭٭


2 टिप्‍पणियां:

Hamari ye post aapko kaisi lagi, apni raay comment kar ke hame zarur bataen. Post padhne k lie Shukriya 🌹