ایک پل کی مہلت نہیں!
از قلم : نہاں کششؔ
جب بھی کسی نے مجھ کو سراہا ہے علم پر
نظروں میں میری آئے ہیں استادِ محترم
اللھم اغفر لہ وارحمہ
واعف عنہ و ادخلہ الجنۃ الفردوس آمین
ایک کورے کاغذ پر رنگ برنگے نقوش بکھیرنے والا اسے ایک عام سے قرطاس سے ایک بہترین تصویر میں ڈھالنے والا مصور جس طرح اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیتا ہے وہ نہیں دیکھتا کہ کس رنگ نے اسکے کپڑوں کو داغ دار بنا دیا تو نجانے کتنے رنگوں نے اسکے ہاتھوں کو گندا کر دیا کیونکہ اس کے لیے یہ چیزیں اس کی منزل سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی تھیں اور اسکی منزل وہ کورا کاغذ تھا جسے عمدہ تصویر میں تبدیل کرنا تھا بلکل اسی طرح ہمارے اساتذہ رات و دن محنت و مشقت سے ہم نادان و نا سمجھ طلبہ کو ایک سوجھ بوجھ رکھنے والا ہونہار انسان بنا دیتے ہیں ہمارے لیے نجانے رات کے کتنے پہر وہ مطالعے میں گزار دیتے ہیں کیونکہ ان کی منزل صرف اور صرف شاگردوں کی کامیابی ہوتی ہے یوں تو دنیا میں ہر انسان یہی چاہتا ہےکہ کوئی اس سے آگے نہ جائے، چاہے وہ اسکا سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو مگر استاد ایک ایسی شخصیت ہے جس کی منشا یہی ہوتی کہ وہ شاگرد کو اس بلند چوٹی پر بھی چڑھتے ہوئے دیکھے جس پر چڑھنے سے وہ خود بھی قاصر رہ جاتے ہیں، اگرچہ اساتذہ کو درس و تدریس کے پیسے ملتے ہیں تو اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ پیسے انکی محنتوں کا بدل ہیں کیونکہ ہمارے بہت سے ایسے معاملات ہیں جو پیسوں سے چلتے ہیں مثلا جب ہم خرید و فروخت کرتے ہیں تو ہم پیسے کے عوض دکاندار سے اسکا سامان خرید لیتے ہیں اس میں دکاندار کا فائدہ بھی ہوتا ہے اور ہمیں سامان بھی ملتا ہے مگر وہ دکاندار ہمارا خیر خواہ نہیں ہوتا،کسی سامان میں اگر نقص ہو تو وہ ہم سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے ہمیں دھوکے میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ پیسے تو ہم اسے پورے ہی دیتے ہیں مگر استاد ہمیں جو علم دیتے ہیں اسے کب کہاں کیسے کس طرح استعمال کرنا ہے ہر چیز سے باور کراتے ہیں ہماری غلطیوں ہماری کمیوں کو تلاش کر ہمیں بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس بات کا احساس ہمیں اس وقت ہوتا ہے جب ہم خود استاد بنتے ہیں یا استاد محترم ہمیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر آباد کہہ کر داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں اور ہم ان کی شفقت اور نصیحتوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔ یاد رہ جاتا ہے تو بس ان کا سبق جو زندگی کے ہر مسئلے ہر موڑ پر ہمارا ساتھ دیتا ہے ، اگر استاد اور شاگرد کے رشتے کی بات جائے تو یقینا ہر ایک کا اس بات پر اتفاق ہیکہ ایک معلمہ اور طالبہ کا رشتہ روحانی ماں اور بیٹی کا رشتہ ہوتا ہے بلکل اسی طرح ایک معلم اور ایک طالبہ کا رشتہ روحانی باپ اور بیٹی کا ہوتا ہے ۔
آج ایک شفیق ہر دل عزیز استاد استاد محترم مولانا عبد اللطیف رحمہ اللہ کے انتقال کی خبر ملی تو دل و دماغ نے یقین کرنے سے ہی انکار کر دیا ایسا محسوس ہوا جیسے ہم نے آج ایک شفیق باپ کھو دیا امت نے ایک بہترین عالم دین کھو دیا، آپ کی موت سے یقینا پرانے زخم بھی ہرے ہو گئے کچھ مہینے قبل ہی تو ہم نے ایک اور باہمت با وقار استاد مولانا مختار مدنی رحمہ اللہ کو اس دارِ فانی سے رخصت ہوتے دیکھا تھا، اب آپکی موت یقینا ہمارے لیے بہت بڑا خسارہ ہے،اب وہ باتیں بھی ہمیں یاد آ رہی ہیں جو شاید ہم دورانِ امتحان بھی بھول جایا کرتے تھے وہ سبق وہ نصیحت کیسے ایک پل میں ذہن میں گردش کرنے لگا ہے اور آپ کا ہنستا ہوا بانور چہرہ اور آپکی بلند آواز مانو ہماری سماعت سے ٹکرا رہی ہو، دعا ہیکہ اللہ آپ کی چھوٹی بڑی تمام گناہوں کو بخش دے اور آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے اور امت کو نعم البدل عطا کرے آمین۔۔۔۔اور بلا شبہ آپ کی موت بھی ہمارے لیے ایک سبق ہے ایک نصیحت ہے، کہ انسان چاہے جتنا بھی علم حاصل کر لے، سائنس چاہے جتنی بھی ترقی کر لے، ڈاکٹرز چاہے کسی بھی بیماری کا علاج کر لیں مگر اس موت سے کسی کو چھٹکارا نہیں، چھٹکارا تو بہت دور۔۔۔۔۔ جب موت کا وقت آجائے تو ایک پل کی بھی مہلت نہیں !
افسردہ
जवाब देंहटाएं