Qalam Meri Taqat

Stories, Poetries, Poems, News, How to..., Tools, Quotes, Stanza and many more...

Qalam Meri Taqat

Welcome

शनिवार, 12 फ़रवरी 2022

Kaash ! wo ek bura khwab hota(کاش وہ ایک برا خواب ہوتا)

 کاش وہ ایک برا خواب ہوتا


از قلم : شفق رحمان محمدی

ہمارے استاد محترم شیخ الحدیث جناب حافظ عبد اللطیف اثری صاحب کی وفات قابل غیر یقینی ہےجن کا بھول جانا ہمارے بس میں نہیں ہے ۔گزشتہ شب یکایک سے ہمارے درجہ کا گروپ "جماعت ثامنہ کے۔ایف۔زیڈ" میں ہماری پرنسپل محترمہ گلشاد یاسمین صاحبہ کاایک میسج آیا جسے پڑھ کر ایسا لگ رہاا تھا جیسے پیر کے نیچے سے زمین و سر کے اوپر سے آسمان چھین لیا گیا ہو۔پورا بدن کانپنے لگا تھا کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہو پا رہی تھی بس آنکھیں اشکبار ہو رہی تھیں۔ اس میسج میں ہمارے ہر دل عزیز استاد محترم  شیخ الحدیث مولانا عبد اللطیف اثری صاحب کی وفات کی خبر تھی جس کا یقین کرنا میرے لئے تو کیا کسی کے لئے بھی ممکن نہ تھا لیکن پھر بھی آیاتِ قرآنیہ کل نفس ذائقۃ الموت (ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے ) کی  روشنی میں پُر نم آنکھوں سے یقین کرنا پڑ رہا تھا۔ دل ایسا کہہ رہا تھا کہ مانو' کاش وہ ایک برا خواب ہوتا'۔

                  مولانا محترم خوش مزاج ، نرم طبیعت اور اعلیٰ اخلاق کے ضامن تھے ۔ متعدد کتابوں کے مصنف و محقق اور 'جامعہ عالیہ عربیہ  مئو'کے سابق استاد  و ہمارے مدرسے' کلیہ فاطمہ الزہرا ء  الاسلامیہ 'کے شیخ الحدیث تھے ۔ علاوہ ازیں بھی مولانا موصوف نے علم دین کے بے بہاخدمات انجام دئے اور دے رہے تھے۔

          ا    لحمدللہ مولانا موصوف سے فضیلت کے آخری سال میں چار یا پانچ مہینہ  مجھے شرف تلمیذ حاصل ہوا۔ مولانا صاحب ہم لوگوں کو حدیث کی سب سے بہترین کتاب "صحیح البخاری اور دیگر مضامین جیسے التفسیر والمفسرون ، فتح المنان،بدایۃ المجتھد  اور علم مقاصد الشارع کی درس دیا کرتے تھے ۔ یہ اتفاق ہی تھا کہ گزشتہ روز  ہی ہم نے ان کے پرچہ  'علم مقاصد الشارع 'کا  امتحان بھی دیا  تھاجس کی  ممکنہ طور پر انہوں نے کاپیاں بھی چیک کر لی تھی۔ مگر آج بتاریخ  12 فروری 2022 کو انکے دو اور پرچے فتح المنان اور ہدایۃ المجتہد باقی تھے جو   بروقت ان کی رحلت   کی بناء پر  رد کر دیا گیا ہے ۔ اب جب فضیلت کا محض ایک مہینہ اور رہ گیا ہے تو مولانا حکم الہی سے ہم سب کو اس دار بقاء  میں  چھوڑ کر دار  ابدی  کو کوچ کر گئے ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔  منشیات خداوندی شاید یہی تھی  ویسے بھی نیک اور مخلص لوگ زیادہ وقت تک کہاں رہ پاتے ہیں۔

          مولانا موصوف کے پڑھانے کا انداز نہایت عمدہ اور دلچسپ ہوا کرتا تھا ۔ دوران تدریس اپنے ساتھ گزرے ہوئے اتنے دلچسپ اور نصیحت آموز واقعات  بتایا کرتے تھے  کہ  کیا  ہی کہنا۔ دوران تدریس اتنے پیار سے بیٹی بیٹی کہہ  کر مخاطب کرتے تھے  کہ ان میں ابو جان کا عکس نظر آتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ جب بھی وہ ہمارے درجے میں تشریف لاتے ہم سب کی زبان پر بالخصوص میری زبان پر  یہ الفاظ جاری رہتے 'ابو آ گئے، ابو آ گئے' ان الفاظ کو سنکر مولانا موصوف  بھی ہمیشہ مسکرا دیا کرتے تھے۔ مگر اب محسوس ہو رہا ہے کہ ہماری زندگی سے کتنا قیمتی سرمایہ اچانک سے ہم سے رخصت ہو چکا ہے  اب ہم  پیارے ابو جان کی محبت  اور ان سے بیٹی سننے کے لئے ترس جائیں گے مگر۔۔۔۔۔۔۔ ۔

          انکی تدریس کا زمانہ واقعی کتنا خوشگوار ہوتا تھا۔  ایام تدریس میں ہی ان کی طبیعت خراب ہو ئی تھی مگر پھر الحمد للہ وہ صحتیاب بھی  ہو گئے تھے  ۔ دوا جاری تھی مگر شاید ان کی زندگی کو یہیں تک وفا کرنی تھی۔

          مولانا موصوف کی رحلت سے ایک روز قبل فون پر ان سے میری گفتگو بھی ہوئی تھی   جس میں مولانا  نے اسکول کھلنے پر  کھلنےسے دو چار روز قبل ہی  مئو آ نے کا تذکرہ بھی کیا تھا  ۔میں نے  بھی مولانا سے  اپنے درس وتدریس گروپ "رب زدنی علما "میں  مولانا کے پروگرام رکھنے کی بات کہی تھی  اور مولانا اس کے لئے رضا مند بھی تھے۔ مگر  منشاء ایزدی کچھ اور ہی تھی اور ہمارا یہ خواب خواب ہی رہ گیا۔

          ہمارے مدرسہ میں آئے مولاناموصوف کو  ابھی کچھ مہینے ہی گزرے ہی تھے  جس وجہ سے تمام طالبات کے نام بھی مولانا کو  یاد نہیں ہوئے تھے مگر جن خوش نصیبوں کے اسماء مولانا کو یاد  تھے ان  میں ایک ناچیز بھی تھی۔ مولانا کی سادگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ دوران تدریس ایک مرتبہ جب میں نے مولانا کا نام انکی کاپی پر "محترم و مکرم جناب حافظ عبد اللطیف  اثری صاحب 'لکھ دیا تھا تو مولانا مجھ سے روبرو ہوئے اور ا نہوں نے کہا کہ  میرا تو اتنا چھوٹا سا نام 'عبد اللطیف' ہے  تم نے اسے  اتنا بڑا کیوں کر دیا۔

          مولانا موصوف  نے دوران تدریس ہرطرح سے ہماری امداد کی  اللہ  انہیں اس کا بہترین بدلہ دے، آمین ۔  ہمارے درجے میں جن کےمقالے  کے مشرف ہوتے تھے مولانا  ان کی تو مدد کرتے ہی تھے مگر کچھ لڑکیوں کے مقالے کے مشرف نہ ہونےکے باوجود بھی مولانا  ان کی مدد کیا کرتے تھے ۔ ان کی تعریف میں مزید کیا لکھوں فی الحال جو کیفیات حاوی ہیں ان  کیفیات میں  تو کچھ بھی بیان کرنےسے قلم قاصر ہے  بس اللہ سے دعا ہے  کہ مولانا  صاحب کی مغفرت فرمائے ،انکے  اعمال صالحہ کو قبول فرمائے ، انکی قبر کو منورفرمائے، جنت میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائے ، سلف صالحین اور صدیقین و شہداء کے زمرے میں جگہ عطا فرمائے ، وارثین کو صبر جمیل عطا فرمائے و ہم سب کو ان کے لئے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین یا رب العالمین۔

ترسے گی  اب زباں ہماری آپ کو' ابو' کہنے کو

ہو  جائینگے ہم بے قرار آپ سے 'بیٹی'سننے کو

٭٭٭

1 टिप्पणी:

Hamari ye post aapko kaisi lagi, apni raay comment kar ke hame zarur bataen. Post padhne k lie Shukriya 🌹