کیا میں مسلمان ہوں؟؟
سفر اتراکھنڈ کے لئےمیں روانہ ہو رہا تھا۔ دروازہ پر ابھی پہونچا تھا اور عنقریب تھا کہ میں بس پر سوار ہوتا ماں نے بڑے لاڈ و پیار سے روانہ کیا۔ ہر طرح کی تنبیہات کی اور جاتے جاتے کہا، بیٹا سب کچھ کرنا مگر ایمانداری اور نماز کبھی مت چھوڑ نا کیوں کہ ہم مسلمان ہیں۔
میں نے وعدہ کیا اور نکل پڑا راستے میں میری
ملاقات ایک عالم نما شخصیت سے ہوئی جو کرتا پائجامہ ٹوپی وغیرہ میں ملبوس اللہ کے
ذکر میں مشغول تھا۔ جونہی میں نے سلام کیا انہوں نے جواب دیا ا
اور حیرانی سے پوچھا، تم مسلمان ہو ؟
میں نے بھی کانوں سے ہیڈفون
اتارتے ہوئے جواب دیا : جی میں مسلمان ہوں
۔ انہیں تھوڑی حیرانی ہوئی ان کی نظر بارہا مجھے اوپر سے نیچے تک نہار رہی تھی۔ وہ کبھی میرے کانوں کے نیچے بنے ٹیٹو تو کبھی
میرے گلے میں لٹک رہے' کراس' لاکٹ کو دیکھ
رہے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ مانو وہ کچھ کہنا چاہ رہے ہوں مگر۔۔۔۔۔۔۔ بہر حال ادھر
ادھر کی باتوں سے گفتگو شروع ہوئی اور ابھی
چند منٹ ہی ہونے پائے تھے کہ ان کا اسٹیشن
آگیا ۔ وہ حیران نظروں سےمیری طرف دیکھتے
ہوئے مجھے تشویش میں ڈال کر نظروں سے اوجھل ہو گئے ۔
ٹرین
کافی خالی ـ خالی تھی۔ میں پھر سے اپنی
ہیڈفون اور گانوں کی دنیا میں گم ہو گیا اور نہ جانے کب بنارس تک کا سفر طئے ہو گیا پتہ بھی نہیں چلا۔ بنارس میں لوگوں کی ایک بھیڑ نے ٹرین میں اپنے
قدم جمائے چونکہ میں جنرل ڈبے میں سفر کر رہا تھا اس لئےبمشکل ایک سیٹ حاصل کر اپنی جگہ پر قابض تھا ۔ ٹرین کھل گئی کچھ
دیر چل چکنے کے بعد میری نظر اسی بھیڑ
میں کھڑے ایک عمر رسیدہ شخص پر پڑی جو
ضعیفی سے اس قدر مجبور معلوم پڑتا تھا
کہ بمشکل ایک قدم بھی چل پاتا ہو اور حالات سے اس قدر مجبور کہ بمشکل جنرل
کا ٹکٹ بھی اس نے کٹایا ہو ۔ابھی میں اس وہم وگمان میں مبتلا ہی تھا کہ کسی شخص کی آواز
میرے کانوں سے ٹکرائی ۔۔۔ ابے بڈھے بھدی سی جھولی کو کنارے رکھ کر نہیں کھڑا ہو
سکتا ؟ کیا تجھے دکھائی نہیں دیتا کہ میری
بیٹی بار ہا تیری اس گندی سی جھولی سے ٹکڑا رہی ہے؟ وہ مجبور بوڑھا جسے سب لوگ بڑی
ہی بد نظری سے دیکھ رہے تھے کسی طرح اپنی
جھولی کو سمیٹنے کی کوشش کر رہا تھا مگر۔۔۔۔۔۔کر بھی کیا سکتا تھا۔ یہ سب دیکھ کر
میرے صبر کا پیمانہ جب برداشت کی حد سے
باہر ہو گیا تو میں نے آواز دی، بابا ! آپ کو کھڑے ہونے میں دقت ہو رہی ہوگی اسلئے آپ
یہاں میری جگہ بیٹھو ۔ جب میں نے آواز
دی تو وہ شخص جو اسےدھتکار رہا تھا پشیمان
اور پریشان ہو گیا کیونکہ اس کی چھوٹی
بیٹی جو اس وقت کھیل رہی تھی وہ میری ہی بغل میں بیٹھی تھی ۔بوڑھے نے پہلے تو منع کیا
مگر پھر میرے اصرار کرنے پر راضی ہو گیا ۔
اسے بھی اتراکھنڈ جانا تھا جو مجھے بعد میں معلوم پڑا۔ یوں میری جگہ وہ بوڑھا بیٹھ
تو گیا مگر بارہا اس نے کو شش کی کہ میں واپس سے اپنی جگہ پر بیٹھ جاؤں مگر میری
ضد کے آگے اس کی ایک نہ چلی ۔ چند منٹوں بعد اسی شخص نے جو اس بوڑھے کو دھتکار رہا
تھا خود ہی مجھے بھی
بیٹھنے کو مدعو کیا۔ پھر میں بھی وہاں جگہ بنا کر بیٹھ گیا بعد ازاں باتوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس نے
بتایا کہ وہ پچھلے دو روز سے بھوکا ہے اس کے پاس چند پیسے تو ہیں مگر اگر وہ ان
پیسوں سے کچھ کھا لے تو جس کام کے تحت وہ ہریدوار جا رہا ہے پھر وہ ممکن نہ ہو
پائے گا۔ میں نے اس کی حالت دیکھی اور جو کھانامجھے ملا تھا اسے بھی اس کھانے میں
شریک کر لیا۔ کھانا کھا کر بوڑھا نہایت
خوش دکھائی پڑ رہا تھا ۔ پھر باتوں ہی
باتوں میں اس نے بتایا کہ اس کا نام پنڈت
ابھئے کمار پانڈے ہے۔ پیشے سے تو وہ ایک پنڈت تھا مگر وقت اور عمر کے تقاضے نے اسے
اس موڑ پر لا کھڑا کیا ہے کہ آج وہ اپنی
بیوی کی برسی پر ہریدوار اکیلے ہی جا رہا ہے ۔ اس نے مجھے احسان مند نظروں سے جھانکتے
ہوئے اور شکریہ ادا کرتے ہوئے دریافت کیا،
بیٹا تمہارا کیا نام ہے ؟ میں نے مسکرا کر جواب دیا ۔ جی، عبداللہ ۔۔۔۔۔۔
میرا یہ جواب سنتے ہی مانو اس پر بجلی گر گئی ہو ۔ کسی طرح اس نے خود کو
سنبھالتے ہوئے دوبارہ پوچھا ، ک۔ک۔کیا؟
میں نے پھر سے جواب دیا ، عبد اللہ ۔
تم مسلمان ہو ؟ اس کے منہ سے بلا ساختہ نکلا۔
ہاں میں مسلمان ہوں ۔۔۔۔ میں نے جواباً دہرایا۔
کیا مسلمان ایسے بھی ہوتے ہیں ؟
میں نے پوچھا کیوں ؟؟
اس نے کہا بیٹے آج تک مجھے مسلمانوں سے اس قدر
نفرت تھی جو میں بیاں نہیں کر سکتا ۔ اس کے ساتھ کھانا تو دور میں اس کے ہاتھ
لگےگلاس کو بھی کبھی چھو نہیں سکتاتھا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس نفرت کی آگ میں میں آج
تک کبھی مسلمانوں سے گفتگو بھی مناسب نہیں
سمجھتا تھا ۔ ابھی بھی اگر مجھے پہلے معلوم ہو جاتا کہ تم ایک مسلمان ہو تو میں یہ
پورا سفر بھوکے اور کھڑے ہو کر مکمل کرنا
بہتر سمجھتا الا یہ کہ تمہاری جگہ بیٹھتا،
مگر تمہارے گلے میں پڑے اس لاکٹ نے مجھے یہ ماننے پر مجبور کیا کہ تم ایک مسلمان
نہیں ہو،مگر بیٹے مسلمان ایسے بھی ہوتے ہیں مجھے نہیں پتہ تھا ۔ آج تم نے میری
آنکھیں کھول دیں، مسلمانوں کے لئے جو میرے دل میں تعصب تھا آج ایک جھٹکے میں تم نے
اس تعصب کے چشمے کو اتار دیا ، آج مجھے اس
بات کا بالکل بھی افسوس نہیں ہے کہ میں نے ایک مسلمان کے دئے ہوئے کھانے کو تناول کیا ، بلکہ مجھے اس بات کا فخر ہوگا کہ
آج میں نے اس کھانے کے ساتھ ہی مسلمانوں کے ساتھ رکھے ہوئے اپنے تعصب کے چشمے کو
اتار پھینکا۔ وہ بوڑھا اپنی لرزتی ہوئی زبان سے بولتا جا رہا تھا اور میں ایک ٹک
ہو کر سن رہا تھا۔ ہماری منزل آ چکی تھی میں نے اسے ٹرین سے اتارنے میں اس کی مدد کی، چند روپے
جو مجھ سے ممکن ہو سکے اسے دئے۔ بمشکل اس نے قبول
کرتے ہوئے دعا دی اور پھر وہ اپنی راہ اور
میں اپنی راہ ہو لیا۔ مگر میرے ذہن میں ایک ہی سوال گردش کر رہا تھا ۔ کیا میں مسلمان ہوں؟۔
مسلمان کے لئے سوچ کا مقام ہے
जवाब देंहटाएं