میرے بعد کیا ہوگا (ہماری احمقانہ سوچ)
کوئی 10،11 کی عمر رہی ہوگی جب میں مدارس میں
زیر تعلیم ہوا کرتا تھا چھ سات سو طلباء
کے مابین جب بھی پروگرام ہوا کرتا تھا ان پروگرام کی تیاری کے کاموں میں مجھے بھی
شامل کیا جاتا تھا تب ایک بات میری ذہن میں
گردش کیا کرتی تھی کہ آج میں ہوں تو یہ سب کر لیا کرتا ہوں میرے بعد کیا
ہوگا۔ مدرسے سے فراغت کے بعد میں اسکول میں زیر تعلیم ہوا اور وہاں بھی تقریباً ۵۰۰ طلباء کے درمیان کوئی بھی
پروگرام کوئی بھی آفشیل کام ہوتا سب سے پہلے مجھے ہی یاد کیا جاتا تھا اور میں بھی
پوری لگن اور پوری محنت سے اپنی ذمہ داری کو انجام دیا کرتا تھا بلکہ متعدد ایسے
کارنامے بھی میں نے اسکول میں انجام دئے جس کی وجہ سے میری ایک الگ ہی شناخت قائم
ہو گئی تھی۔ ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ ہر عہدے پر فائزین مجھے بخوبی جانتے تھے ۔ میرے
ذہن میں تب بھی یہ بات گردش کرتی رہتی تھی کہ میرے بعد اسکول کا کیا ہوگا۔ پھر میں
کوچنگ کی طرف رخ کیا وہاں بھی اساتذہ کے سب سے قریب اور ہر کاموں میں شامل رہا
کرتا تھا اور وہاں بھی یہی بات 'میرے بعد کیا ہوگا' گردش کرتی رہی، اب میں تھوڑا
بڑا اور عقلمند ہو گیا تھا گھر کے ہر مشورے میں پیش پیش رہا کرتا تھا گھر میں میرے
مشورے کو وہ اہمیت حاصل تھی کہ بغیر میرے مشورے کے کوئی کام انجام نہیں پاتا تھا
اور تب بھی یہی بات 'میرے بعد کیا ہوگا' مجھے کھائے جاتی تھی۔ گھر میں شادی بیاہ
کا ماحول آیا گیا اور بحمداللہ میں اس میں بھی پیش پیش رہ کر سارے کام بحسن و خوبی
انجام دیا۔ بعدہ اکثر فریقین کے آپسی خیالات میں نااتفاقی ہونے کی صورت میں جب بھی حالات ناساز ہوا کرتے
میں تن تنہا سمجھا بجھا کر حالات سازگار بناتا رہتا مگر جب بھی یہی خیال میرے بعد
کیا ہوگا' مجھے شش و پنج میں مبتلا کرتا رہا۔ زمانہ طالب علمی میں میں عشق و معاشقہ میں بھی مبتلا ہوا جس میں
مجھے بھی فریق مخالف سے جو محبت دریافت تھی حاصل ہوئی اور جب تک میں اس میں مبتلا
رہا یہی سوچتا اور گمان رکھتا تھا کہ میرا یہ ہمسفر چند روز یا چند سال کے لئے نہیں
، تا حیات صرف میرا ہے بلکہ یہاں تو 'میرے بعد کیا ہوگا' جملے کی بھی کوئی گنجائش
باقی نہیں تھی۔
آج
میں نہ اُس مدرسے میں ہوں، نہ اسکول میں، کوچنگ سے دور تک کوئی ربط نہیں، اساتذہ
کے نمبرات تک لاحاصل ہیں، گھر کے ہر مشورے اور ہر فیصلے میں بھی میری عدم موجودگی
ہے، وہ رشتے جن کے لئے میں تن تنہا لڑا کرتا تھا آج مجھے دیکھنا بھی پسند نہیں
کرتے۔
مگر!
مدارس آج بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں، اسکول
اپنی خدمات دینے میں قبل کی طرح ہی آج بھی رواں دواں ہے، کوچنگ جس میں
طلباء کی تعداد بمشکل 150،100 ہوا کرتی تھی آج وہاں ہزاروں میں طلباء علم حاصل کر رہے ہیں، اساتذہ کرام
آج اس مقام کو پہنچ چکے ہیں کہ ان کے یو ٹیوب چینلز لاکھوں میں فالورز بن چکے ہیں
، گھر کے بھی حالات بحسن و خوبی اور بہتر طریقے سے رواں دواں ہیں، وہ جو کل کو بات بات پر لڑا
کرتے تھے آج زندگی کے پہیے کو بنا کسی سہارے کے بخوشی آگے بڑھا رہے ہیں اور جس حسینہ
کے بارے میں 'میرے بعد کیا ہوگا' خیال
لانا بھی میرے لئے جرم عظیم ہوا کرتا تھا آج اس جملے کے ساتھ کہ "میں اسے کبھی خوش نہیں رکھ سکا"
کسی اور کے ساتھ لال جوڑے میں سجنے کو تیار ہے۔
ان
سارے حالات اور وقت کے اس گھومتے پہیے کو دیکھ کر آج بے ساختہ میں یہ کہنے پر قاصر
ہوں کہ "جو
ہوں میں ہی ہوں، جو کر سکتا ہوں میں ہی کر سکتا ہوں" نہیں، بلکہ زندگی اور وقت کے سفر میں ایک شخص "جو تھا ان میں میں بھی تھا، جو کر سکتا تھا میں بھی کر سکتا
تھا۔"
٭٭٭
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें
Hamari ye post aapko kaisi lagi, apni raay comment kar ke hame zarur bataen. Post padhne k lie Shukriya 🌹