دوسری قسط
از قلم عیان ریحانؔ
۔۔۔۔۔اچانک سے صمد کا پاؤں پھسلا اور وہ گر پڑا۔
صمد کے والد چونکہ آفس تھے ماں فوراً اسے
بچانے اور اٹھانے کے لئے بھاگی اور اسی بھاگنے کے دوران وہ سیڑھیوں سے نیچے گر پڑیں۔
انہوں نے کسی طرح
خود کو سنبھالا اور صمد کو لیکر سیدھے ہاسپٹل پہونچی۔ ماں اور بیٹے دونوں کو چوٹ
لگی تھی صمد کا پاؤں زخمی ہوا تھا جبکہ ماں کے سر میں چوٹ آئی تھی۔ اب تک صمد کے والد بھی ہاسپٹل پہونچ
چکے تھے، علاج و معالجہ شروع ہوا۔ صمد تو
ایک دو روز میں ٹھیک ہو گیا مگر ماں کو سر
میں چوٹ میں آنے کی وجہ سے ایسی بے ہوشی طاری ہوئی کہ انہیں ہوش ہی نہیں آ رہا
تھا۔ڈاکٹرز بھی کچھ کہنے سے بچ رہے تھے ۔ 'ہم
پوری کوشش رہے ہیں آپ ہمت وحوصلہ رکھیں'۔ اس سے زیادہ اور کچھ بھی کہنے کے لئے
شاید انکے پاس اس وقت الفاظ نہیں تھے۔ رشتہ دار و احباب تیمارداری کےلئے جوق در جوق آ جا رہے تھے۔ صمد کے والد کے لئے یہ انتہائی مشکل
گھڑی تھی۔ ہوش نہ آنے کی فکر ، صمد کی
دیکھ بھال اور کھانے پینے کا بندوبست
کرنا، ہاسپٹل میں دن رات ایک امید لئے اپنےقدم جمائے رکھنا، صمد کی ہر ضروریات پوری
کرنے کی فکر ، ہاسپٹل کی ہر ہر آواز پر فوری لبیک کہنا، دوا و علاج کے لئے پیسے کا انتظام کرنا ، کام پر نہ جا
پانے کی وجہ سے پیسے پیسے کا محتاج ہونا،
دوا کے ساتھ ساتھ ہر دم دعا کرتے رہنا متعدد پریشانیوں کے مابین ہمت و صبر کا دامن
تھامے رکھنا، چہرہ پر شکن کے آثار بھی نمایاں نہ ہونے دینا، صمد کے والد کی زندہ
دلی اور مظبوط عزم واستقلال کی نظیر پیش کر رہی تھی۔
اللہ اللہ کرکے انکی دعاؤں اورمحنت کا ثمرہ رب نے
انہیں عطا کیا اور صمد کی والدہ کو ہفتہ
بھر بعد ہوش آگیا۔ ہوش آتے ہی ماں کی زبان
سے جو سب سے پہلا لفظ نکلا ' صمد کیسا ہے۔۔۔؟ اسے زیادہ چوٹ تو نہیں لگی۔۔۔؟' لاکھ
مطمئن کرنے کے باجود بھی جب تک صمد کا
مسکراتا کھیلتا چہرہ سامنے نہیں آیا، ماں کی بے چینی کم نہیں ہوئی۔ اپنی زوجہ کے صحت یاب
ہونے پر صمد کے والد نے خدا کا شکریہ ادا کیا۔ اور تمام ڈکٹرز کو بھی ان کی اس
کوشش کے لئے دل سے دعائیں دی۔
زندگی پھر سے اپنے معمول کے مطابق چلنے لگی تھی۔
صمد کے والد دوبارہ سے مصروفیات سے بھری زندگی میں مشغول ہو گئے۔ روزانہ آفس جانا،
آفس سے آتے وقت صمد کے لئے چاکلیٹ لانا ،خواہ کسی قدر مصروفیت ہو صمد کے ساتھ کھیلنا
والد کبھی نہیں بھولتے تھے۔
صمد اب
بولنے لائق ہو چکا تھا ماں کی آغوش میں اسکی تربیت شروع ہو چکی تھی اور اب اس کی
تعلیم کا انتظام کرنا تھالہذا بنیادی دینی
تعلیم کے لئے صمد کا قریب کے ایک مکتب میں داخلہ کرا دیا گیا اور پھر جب صمد کی عمرتقریباً 4سال کی ہو گئی تو ایک اچھے سے اعلیٰ اسکول میں داخلہ کرا دیا
گیا۔ تعلیم میں کوئی کمی نہ رہ پائے اس کے لئے ابھی سےہی الگ سے ایک ٹیوشن کا بھی
نظم کر دیا گیاتھا۔
صمد اب
اپنی بچپنے کی طالب علمی کی دور سے گزر رہا
تھا جہاں والدہ خود صبح اٹھ کر ناشتہ تیار کرتیں پھر
صمد کو اٹھاتی اور اسے منہ ہاتھ دھلا کر اسکول کے لئے تیار کروا کے ناشتہ کراتیں۔
والد اسکے ہاتھ میں کبھی پانچ تو کبھی دس روپے کا سکہ
تھما کر اسے اسکول چھوڑ آتے۔ چھٹی کے وقت
ماں صمد کو اسکول سے لانے جاتیں اور پھر گھر پر بڑے پیار سے صمد کا ہاتھ منھ دھلا
کر کھانا کھلاتیں۔ تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد صمد کے ٹیوشن والے سر آ جاتے اور
پھر ان کے جاتے ہی صمد کھیلنے نکل جاتا۔
کتابوں اور کھلونوں سے صمد کے کمرے کی الماری بھڑی پڑی تھی اگر کوئی کتاب پھٹ جائے
یا کھلونے ٹوٹ جائیں تو اگلے ہی روز نئی کتاب اور کھلونے حاضر ہو جاتے تھے۔ دیکھتے
ہی دیکھتے صمد کب بڑا ہوا معلوم بھی نہیں پڑا۔ پرائمری سے مڈل اسکول تک کا سفر اتنی
جلدی طئے ہو جائے گا اندازہ بھی نہیں تھا۔ صمدایک نہایت ہی ذہین لڑکا تھا وہ جن کتابوں کابھی ایک
بارمطالعہ کرتا وہ اسے ذہن نشین ہوتی چلی جاتی۔
آج صمد کا دسویں کا امتحان تھا ماں باپ سب کی دعائیں لے کر صمد بورڈ کے امتحان کا پہلا پرچہ دینے امتحان ہال پہونچا۔ ماں باپ کی دعائیں ساتھ تھیں اور بفضلہ تعالیٰ صمد نے عمدہ طریقے سے اپنے بورڈ کے پہلے پرچے کاامتحان دیااور اس کے بعد باقی کے تمام پرچے بھی بحسن و خوبی انجام پائے۔ جب رزلٹ آیا تو جیسی امیدیں تھی اسی کے بموجب اس کا رزلٹ بھی تھا۔ والدین خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے اور خوش ہوتے بھی کیوں نہیں ان کا لخت جگر، نور نظر، ہر دل عزیز بیٹا اپنی زندگی کے پہلے امتحان میں اعلی نمبرات کے ساتھ اول پوزیشن سے کامیاب جو ہو گیا تھا۔
گھر گھر مٹھائیاں بھیجی جا رہی تھیں۔ صبح سے شام تک
والد صاحب کا موبائل بزی تھا کیونکہ ہر چہار جانب سے مبارکبادیاں مل رہی تھیں اور
وہ رب تعالیٰ کی اس مہربانی اور تمام اعزاءواقربا کی محبت کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔
صمد کو انجنیئر ہی بنائیےگا موبائل اور لیپ ٹاپ سے
جس طرح کی وابستگی صمدکی ہے اسکی زندگی کے لئے
یہ ایک بہتر فیصلہ رہے گا۔ میرے کچھ قریبی لوگ ہیں جو اس میں آپ کی بہتر
مدد کریں گے۔۔۔۔
میرے حساب سے صمد جتنا ذہین ہے اسے میڈیکل کی تعلیم
دلائیں۔ صمد کی ذہانت اور وقت کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے صمد کی زندگی سنوارنے کے
لئے یہ ایک عمدہ انتخاب ہوگا۔ ہاں یہ مشکل ضرور ہے مگر صمد اسے با آسانی پار کر لے
گا ۔۔۔۔
صمد کے لئے وکالت سے بہتر کوئی تعلیم ہو ہی نہیں
سکتی جس طرح کی صمد کی ذہانت ہے اور جس طرح سے وہ ہر پہلو پر غور و فکر کرتا ہے اگر وہ اس فیلڈ میں اپنا کیریئر بنائے تو بہت ہی آگے تک جائے گا۔ ویسے بھی ایماندار
وکلاء اور عادل منصف کی ہمیں اشد ضرورت ہے۔۔۔۔۔
ہر
کوئی ہر طرح کے مشورے سے جو بھی انہیں بہتر سمجھ آ رہے تھے ان مشوروں سے نواز رہا
تھا۔ پاس ہی کھڑے محلے کی مسجد کے امام صاحب نے بھی دھیرے سے کہا۔
اگر صمد
کو حافظ وعالم بنائیں اور اسے دینی تعلیم سے آراستہ وپیراستہ کریں تو ممکن ہے صمد
ایک نیک شخصیت کا مالک بن کر اپنی بھی اور لوگوں کی بھی دنیا و آخرت سنوارے گا ساتھ
ہی ماں باپ کے لئے بھی ذریعہ نجات بنے گا۔۔۔۔
پاس ہی کھڑے احباب مولانا صاحب کی اس بات پر
ہنسنے لگے اور ان میں سے ہی کسی نے کہا۔
مولی
صاحب! پھر کھائے گا کہاں سے؟
(جاری ہے۔۔۔۔)
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें
Hamari ye post aapko kaisi lagi, apni raay comment kar ke hame zarur bataen. Post padhne k lie Shukriya 🌹