Qalam Meri Taqat

Stories, Poetries, Poems, News, How to..., Tools, Quotes, Stanza and many more...

Qalam Meri Taqat

Welcome

गुरुवार, 26 मई 2022

اور جب خواب ٹوٹ گیا قسط 3


دوسری قسط سے آگے

تیسری قسط

از قلم: عیان ریحانؔ
یہاں کلک کر کے پڑھیں پہلی قسط       

 یہاں کلک کر کے پڑھیں دوسری قسط       

         

۔۔۔۔۔۔۔اس سے قبل کے مولانا صاحب کچھ کہہ پاتے محلہ کی مسجد سے اذان کی صدا بلند ہوچکی تھی۔ صدا سنتے ہی مولانا نے مسجد کا رخ کر لیا اس درمیان تبصروں کادور جاری رہا جتنے لوگ، جتنی زبانیں اتنے تبصرے مل رہے تھے۔ صمد کے والد نے تمام آراء کو سنا اور ان سب کا شکریہ ادا کیا۔ بالآخر وہ صمد سے مخاطب ہوئے۔
بیٹا! تمہارا کیا خیال ہے؟ تم کس فیلڈ میں جانا پسند کرتے ہو؟
صمد نے نہایت ہی مؤدبانہ و دبے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔۔۔ "آپ جو بہتر سمجھیں، آپ کی پسند ہی میری پسند ہے میرے کیریئر اور میرے مستقبل کے لئے آپ سے بہتر فیصلہ کوئی نہیں لے سکتا، آپ میری ہر کمی خوبی سے بہت بہتر واقفیت رکھتے ہیں اور مجھے قوی امید ہے کہ آپ میرے حق میں جو بھی فیصلہ لیں گے وہ بہتر ہی ہوگا۔ اس لئے میرے کیریئر کا فیصلہ کرنے کا بے شک آپ کو ہی پورا حق ہے۔ "
اپنے بیٹے کی زبان سے ان الفاظ کے سننے کے بعد والد کی آنکھیں نم ہو گئیں انہیں محسوس ہو رہا تھا گویا ان کی سالوں کی تربیت ناکام نہیں ہوئی۔ والد نے بھیگی آنکھوں سے صمد کو دلار کرتے ہوئے ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ پھر اپنے اعز و اقرباء سے مشورہ و غور خوض کیا اور پہلے بارہویں کی تعلیم دلانے اور اس کے بعد انجنیئرنگ کرانے کا فیصلہ لیا۔
 صمد کی بارہویں کی تعلیم کے لئے والد نے ایک بڑے شہر میں اچھے سے بڑے انسٹیٹیوٹ میں صمد کا داخلہ کرا دیا ۔ اپنی جیب کی کمائی کاٹ کر صمد کو رہنےاورپڑھنے کے لئے ایک بہترین سا کمرہ دلا دیا اور حسب استطاعت ایک اچھا سا موبائل بھی دیا ساتھ ہی آ نے جانے میں کوئی دقت نہ ہو ایک بائک بھی خرید دیا۔
کمرے کے کرائے و کھانے پینے کے خرچ کے علاوہ الگ سے پانچ ہزار روپے بھی صمد کو اس کے والد نے اپنی ضروریات پر صرف کرنے کو دیا
جبکہ صمد کی ماں نے بھی اس کے والد سے چھپا کر دو ہزار روپے کا نوٹ اپنی طرف سے بھی صمد کوپکڑا دیا تھا۔
صمد کی بارہویں کے تعلیم کا آج پہلا روز ہی تھا کہ صمد کے انسٹیٹیوٹ میں کسی بات کو لے کر بچوں میں آپس میں ہی زبردست جھڑپ ہوگئی اور نوبت مار پیٹ تک پہونچ گئی، صمد کے درجہ کے تمام بچے تو بھاگ نکلے مگر ان سب سے انجان صمد بھاگ نہ سکا اور ان مشتعل بچوں کی اشتعال انگیزی کا شکار ہو گیا۔
صمد کو کافی چوٹ آئی تھی والد کو خبر ملتے ہی انہوں نے اسی وقت آفس سے چھٹی لی اور صمد کی ماں کو ساتھ لیے بھاگے بھاگے صمد کے کمرے پہونچے، اپنے چوٹوں کی مرہم پٹی کرا کرلیٹا ہوا صمد ان چوٹ سے کراہ رہا تھا۔ ماں نے جلدی سے صمد کی مالش شروع کر دی، والد بھی بھاگے بھاگے دوا وغیرہ لے کر آئے۔ اور صمد کو دوائیاں دیں۔ پھر انسٹیٹیوٹ میں جب اس بابت شکایت کی تو وہاں سے یہی سننے کو ملا کہ"یہ چھوٹی موٹی بچوں کی لڑائی ہمیشہ ہوتی رہتی ہے ہم اس پر کچھ بھی نہیں کر سکتے"۔
ماں کی ممتا اور باپ کا مشفق رویہ ہفتے بھر دونوں نے صمد کی دیکھ بھال کی اور جب صمد ٹھیک ہوا تو موجودہ انسٹیٹیوٹ میں دئے گئے پیسے کی فکر کیے بغیر صمد کا دوسرے انسٹیٹیوٹ میں داخلہ کرا کر ہاسٹل دلا کر اس امید میں واپس چلے آئےکہ ان کا ہونہار ، تربیت یافتہ بیٹا جب بارہویں کا امتحان دے کر واپس لوٹے گا تو اس چھوٹے سے شہر میں ان کا رتبہ الگ ہی ہوگا ۔ ان کی ایک الگ ہی پہچان بنے گی۔ اپنے بیٹے کی ذہانت کو دیکھ کر انہیں قوی امید تھی کہ صمد اپنا مقام ٹاپرز میں ضرور بنا لے گا۔
جاری ہے ۔۔۔۔ 
Aao likhen dil khol ke.



x

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें

Hamari ye post aapko kaisi lagi, apni raay comment kar ke hame zarur bataen. Post padhne k lie Shukriya 🌹