|
تیسری قسط سے آگے |
از قلم:
عیان ریحانؔ
صمد کی
واپسی کی امیدیں لیے صمد کے والدین اپنے کام میں مصروف ہو گئے رفتہ رفتہ وقت کا پہیا
گھوما، صمد کے والد کو اللہ نے کاروبار میں ترقی عطا کی اور گاؤں میں انکی بھی ایک
الگ شناخت بن گئی۔ وہ پیسے و رتبے ہر
اعتبار سے مظبوط ہو گیے۔
صمد کی
بھی بارہویں کلاس مکمل ہو چکی تھی صمد کی تعلیم میں کوئی رکاوٹ نہ آئے اس لیے والدین
نے اس درمیان صمد سے نہایت ہی کم رابطہ بنایا تھا۔
آج جب صمد کے کلاسز مکمل ہوئے تقریباً پچیس روز
گزر چکے تھے تو اسکے والدین صمد کو لانے کے لیے گھر سے نکلے۔ صمد کے کمرے پر
پہنچنے کے بعد دیکھا تو وہاں تالا لگا ہوا تھا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ صبح جو
صمد دوستوں کے ساتھ نکلا ہے تو اب تک نہیں آیا ہے۔
والد نے
پریشانی کے عالم میں فوراً صمد کو کال کیا مگر 'ڈائل کیا گیا نمبر ابھی بند ہے'
سن کر والدین پریشان ہو گیے، پھر انہوں
نے سوچا کہ ہو سکتا ہے صمد کسی ضروری کام
کی وجہ سے موبائل بند کر کے کہیں نکلا ہو، وہ دونوں واپس سے اپنے گھر چلے آئے۔ دن
بھر کوشش کرتے رہنے کے بعد رات کو جب صمد کے نمبر پر کال لگا تو صمد نے بتایا کہ
وہ اگلے ہفتے گھر آئے گا اسی دن اس کا رزلٹ بھی آ جائے گا۔
صمد کی
ماں نے جب اصرار کیا تو صمد نے کچھ ضروری کام ہے کہہ کر
فون کاٹ دیا۔
والدین
اس روز سے اگلے ہفتے تک صمد اور اس کے رزلٹ کا بے صبری سے انتظار کرنے لگے۔ انہیں
صمد سے قوی امید تھی کہ وہ ایک بار پھر سے اعلیٰ نمبرات لا کر اپنا اور اپنے
والدین کا نام روشن کرے گا۔ تمام رشتے داروں کو بھی مطلع کر دیا گیا کہ اگلے ہفتے
صمد کا رزلٹ ہے اس موقع پر ایک چھوٹی سی دعوت ہےآپ سب ضرور تشریف لائیں۔
جیسے تیسے
کر کے ایک ہفتہ گزرا، آج صمد گھرآ رہا تھا اس کی آمد اور رشتہ داروں کی دعوت کے
پورے انتظام والد نے اکیلے ہی پورے کر لیے تھے۔ رشتہ داروں کی آمد کا سلسلہ بھی
شروع ہو چکا تھا سب کی زبان پر صمد کی تعریف تھی جسے سن کر والدین پھولے نہیں سما
رہے تھے۔۔۔
دوپہر
12 بجے صمد کی بائک دروازے پر آ لگی صمد اپنی بائک سے اترا۔ والدین سے مسکراتے
ہوئے سلام ومصافحہ کیا اور خاموشی و تیز تیز قدموں سے اور کسی سے ملے بغیر اپنے
کمرے میں پہنچ کر دروازہ بند کر کے فریش ہونے چلا گیا۔ اب تک تمام رشتہ دار بھی پہنچ چکے تھے۔ کھانے کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔
دوپہر ۲ بجے رزلٹ آنے کا وقت تھا۔ نہایت ہی خوشی کا ماحول
تھا۔سبھی صمد کے والد کو مبارکباد پیش کر رہے تھے۔
کسی بھی
قسم کی ان ہونی سے بے خبر سب کے چہرے خوشی سے جگمگا رہے تھے ۔صمد جتنا ذہین تھا اس
میں کسی گنجائش کی کوئی صورت نہیں تھی کہ
وہ اعلیٰ نمبرات سے کامیاب نا ہو۔
آخر کار
وہ گھڑی آ گئی جب صمد کا رزلٹ آنا تھا۔ 2 بج چکے تھے سبھی مہمان کھانے وغیرہ سے فراغت پا
چکے تھے۔ انٹرنیٹ پر نوٹیفیکشن آ گیا کہ بارہویں کا رزلٹ ڈکلیر ہو چکا ہے۔
سبھی
خوشی کے مارے صمد کے آنے اور اس کا رزلٹ جاننے کا انتظار کرنے لگے، جب کافی دیر ہو
گئی مگر پھر بھی صمد نہیں آیا تو والد کمرے کی طرف گیے اور صمد کو آواز لگائی۔
صمد! صمد ! صمد دروازہ کھولو۔۔۔۔ کافی دیر ہو گئی ہے
رزلٹ بھی آ چکا ہے تم اب تک نہیں آئے ۔۔۔۔
|
مگر اندر سے کوئی جواب نہیں
ملا ۔ صمد کے والد پریشان ہو گیے ماں بھی
پریشانی میں لگاتار دروازہ کھٹکھٹائے جا رہی تھی۔
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें
Hamari ye post aapko kaisi lagi, apni raay comment kar ke hame zarur bataen. Post padhne k lie Shukriya 🌹