تحریک آزادی میں مسلم مجاہدین آزادی کا کردار
عیان ریحانؔ حاجی پور
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
ہماری زبان پر جوں ہی آزادی کی بات آتی ہے دلوں میں ایک عجب سا جوش پیدا ہو جاتا ہے۔ ہمارے لب وجد میں آ جاتے ہیں اور ہم کبھی سارے جہاں سے اچھا، تو کبھی اے میرے وطن کے لوگوں گنگنانے لگتے ہیں۔ کوئی نام آئے نہ آئے مگر گاندھی جی کا نام ہمارے ذہن میں سب سے پہلے جگہ بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور ہم ان ناموں اور نغموں میں ڈوب کر جنگ ازادی کے تصور میں غوطے لگانے لگ جاتے ہیں۔ اغیار تو اغیار ہمارے مسلم نوجوان بھی انہیں چند مجاہدین تک ہی جنگ آزادی کو محدود کر دیتے ہیں، جن چند آزادی کے علمبرداروں کے ناموں سے ہمیں واقفیت رہتی ہے ان میں، گاندھی جی سبھاش چندر بوس، جواہر لعل نہرو، بھگت سنگھ، سردار بلبھ بھائی پٹیل اور بمشکل ایک مسلم نام مولانا ابوالکلام آزاد ہمارے ذہن میں آتا ہے۔ افسوس تو تب ہوتا ہے جب ہمیں کوئی ایک دو چھوڑ ، ان مخصوص مجاہدین میں سے بھی کسی کے انجام دیے گیے کارنامے کا علم نہیں ہوتا۔
ہمارے شہداء ہمارے جنگجو، ہمارے مجاہدین جنہوں نے ہمارے لیے اپنی جانیں تک قربان کر دیں مگر ہم ان کے کارنامے تو بہت دور، ان کے ناموں سے بھی واقفیت نہیں رکھتے۔ کیا ہماری ذمہ داری یہیں تک تھی کہ ہم ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے والے محض پانچ سات مجاہدین آزادی کے ناموں پر اکتفاء کر لیں۔ اور اس میں بھی مسلم مجاہدین آزادی کے ساتھ ایسا دوہرا رویہ کہ انہیں سرے سے ہی بھول جائیں؟ مندرجہ بالا چنندہ مجاہدین آزادی کے علاوہ باقی کے مجاہدین کہاں گئے ؟ وہ ہمیں کیوں نہیں یاد نہیں آتے؟ ہم انہیں معلوم کرنے، جاننے اور یاد رکھنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ جب بھی آزادی کے بات ہوتی ہے تو ہم بالخصوص مسلمانوں کی قربانی کو کیوں فراموش کر دیتے ہیں ؟ ہمیں شہید اشفاق اللہ خان، ٹیپو سلطان، مولانا محمد علی جوہر وغیر کیوں نہیں یاد آتے؟
تواریخ کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں مسلم مجاہدین آزادی کے کارناموں کی ایک لمبی فہرست دکھائی پڑتی ہے۔ جن کا تفصیلی نہ سہی مختصراً بھی اگر مطالعہ کریں تو ہزاروں نہیں لاکھوں مجاہدین ملیں گے جنہیں یا تو تاریخ نے بھلا دیا ہے یا ہم خود انہیں بھول بیٹھے۔
علی وردی خان (نانا سراج الدولہ) جنہوں نے 1754 ء میں فورٹ ولیم پر حملہ کر کے انگریزوں کو وہاں سے بھگایاتھا۔ ان کے بعد انہیں کے نواسے سراج الدولہ جو نواب تھے، جب انہیں خطرہ لاحق ہوا کہ انگریزی فوج ان کی سلطنت پر حاوی ہو رہی ہے اور قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی تو انہوں نے 1757ء میں انگریزوں سے جنگ کی مگر اپنے دربار کا سازشوں کا شکار ہو جانے کی وجہ سے انہیں شکست ہوئی اور مرشداباد میں انہوں نے جام شہادت نوش کیا۔
حیدر علی اور ٹیپو سلطان یہ نام تو ایسے ہیں کہ ان کے نام کے بغیر تو آزادی کی تاریخ نامکمل ہے. انہوں نے ء1782 سے 1792ء کے درمیان انگریزوں سے یکے بعد دیگرے مسلسل چار جنگیں کیں اور پھر ٹیپو سلطان کو افسروں و فوجی غداروں کی وجہ سے انگریزوں سے معاہدہ کرنے و کئی کروڑ تاوان دینے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ ٹیپو نے جب محسوس کیا کہ انگریز اس طرح سے ایک ایک صوبہ کر کے پورے ہند پر قابض ہو جائیں گے، تو انہوں نےتمام مسلم بادشاہوں، امراء و رؤساء سے خط و کتابت کر کے انگریزوں سے معرکہ آرائی جاری رکھی اور بالآخر 1799 ء میں انگریزوں کے جنوبی ہند کے امراء کا ساتھ ملنے کے سبب ٹیپو کو بھی سرنگا پٹنم کے معرکہ میں جام شہادت حاصل ہوئی۔ ٹیپو نے ایک بہت ہی زبردست مقولہ دنیا کو دیا کہ " گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے بہتر شیر کی ایک دن کی زندگی ہے۔" ٹیپو کی شہادت کے بعد ہی انگریزی جرنل نے ان کی نعش پر کھڑے ہو کر کہا تھا کہ" اب ہندوستان ہمارا ہے "۔
ہم کیسے بھول جاتے ہیں شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ و شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کو جنہوں نے انگریزوں کے خلاف زبردست تحریکیں چلائیں۔ انہوں نے ہی انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا اور ہندوستان کو 'دار الحرب' قرار دیا تھا۔ 1857 ء میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمہ الله نے انگیریزوں کے خلاف فتوی مرتب کرایاجس پر ان سبھی علماء جن میں مولانااحمدالله شاہ مدراسی رحمہ الله ، مولانا رحمت الله کیرانوی رحمہ الله ، مولانافضلِ حق خیرآبادی رحمہ الله ،مولاناسرفراز رحمہ الله ، حاجی امدالله مہاجرمکی رحمہ الله ، مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله ، مولانا قاسم نانوتوی رحمہ الله ،حافظ ضامن شہید رحمہ الله اور مولانا منیر نانوتوی رحمہ الله وغیرہم کے علاوہ دہلی کے دیگر علماء کے بھی دستخط لئے گئے تھے ۔ پھر یہی فتوی مولانا فضل حق خیرابادی کی گرفتاری کاسبب بنا۔ جب مولاناپرمقدمہ چلااور جہاد کے فتوی کی عدالت نے تصدیق چاہی تومولانا نے کھل کر اقرار کیا کہ یہ میراہی مرتب کردہ فتوی ہے۔
1865 ء میں مولانااحمدالله عظیم آبادی رحمہ الله ، مولانایحییٰ علی رحمہ الله ، مولاناعبدالرحیم صادق پوری رحمہ الله ، مولانا جعفرتھانیسری رحمہ الله کوانڈمان بھیج دیا گیا جو کالاپانی کہلاتاہے۔اسی زمانہ میں مولانافضل حق خیرآبادی رحمہ الله ، مفتی احمدکاکوروی رحمہ الله اورمفتی مظہرکریم دریابادی رحمہ الله کوبھی انڈمان روانہ کیاگیا، جن میں مولانا احمدالله عظیم آبادی رحمہ الله، مولانا یحییٰ علی رحمہ الله ، اورمولانا فضل حق خیرآبادی رحمہ الله وغیرہم اکثر و بیشتر علماء کا وہیں انتقال ہوگیا۔ مولانا عبدالرحیم صادق پوری رحمہ الله اورمولانا جعفر تھانیسری رحمہ الله اٹھارہ سال کی قیدبامشقت اور جلاوطنی کے بعد 1883ء میں اپنے وطن واپس ہوئے۔ مولاناجعفرتھانیسری رحمہ الله اپنی کتاب' کالاپانی' میں وہاں کے حالات تحریر فرمائے ہیں جنہیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں:انہوں نے لکھا ہے کہ "ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پیروں مںل بیڑیاں، جسم پرجیل کا لباس اور کمرپرلوہے کی سلاخیں تھیں۔انگریز نے ہم تین علماء کے لیے خاص لوہے کے قفس تیار کروائے اور ہمیں ان میں ڈال دیا۔اس پنجرے میں لوہے کی چونچ دارسلاخیں بھی لگوائیں، جس کی وجہ سے ہم نہ سہارالے سکتے تھے، نہ بیٹھ سکتے تھے۔ہماری آنکھوں سے آنسوں اورپیروں سے خون بہہ رہے تھے۔غدر کے ملزمان انگریزوں کی نگاہ میں اتنے بڑے مجرم سمجھے گئے کہ غدر1857ء میں پکڑے گئے لوگوں کو یاتوسرعام پھانسی دے دی گئی یابہت سے لوگوں کواسی جزیرے انڈمان میں موت سے بدترزندگی گذارنے کے لیے بھیجاگیا ۔ ان کے علاوہ بھی لاکھوں علماء تھے جو دن رات انگریزوں کے شکار ہو جایا کرتے تھے ایک ایک دن میں ہزاروں علماء کو سولی پر چڑھا دیا جاتا تھا۔
آج جو ہمیں آزادی ملی ہے یہ آزادی یونہی نہیں مل گئی ہے کہ آج ہم نے نعرے لگا دئیے اور کل انگریز ملک چھوڑ کر بھاگ گئے۔ لہذا، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے مسلم مجاہدین آزادی کو بھی پڑھیں، جانیں اور ان کی قربانی کی قیمت و اہمیت کو سمجھیں اور ہمیشہ یاد رکھیں۔ اپنے بچوں و آنے والی نسلوں کو آزادا ہند کے مجاہدین کے کارنامے سے واقفیت دلائیں ورنہ وہ دن دور نہیں جب انہیں لا پرواہی کے سبب مسلم مجاہدین آزادی کا کوئی بھی نام لینے والا ، انہیں یاد رکھنے والا نہیں ہوگا۔
یوں ہی نہیں ملی ہے آزادی آج ہم کو
اپنے لہو سے ہم نے سینچا ہےاس وطن کو
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें
Hamari ye post aapko kaisi lagi, apni raay comment kar ke hame zarur bataen. Post padhne k lie Shukriya 🌹