ڈائری
کامران غنی صباؔ
دنیا والوں کا رویہ دیکھ کر کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ شاید میں اِس کرۂ ارض کا سب سے مسرور اور خوش نصیب انسان ہوں۔ میرے سوا سب لوگ پریشان ہیں۔میں اکیلا اس سنسارکا سکھی انسان ہوں۔ جس سے ملیے یا تو مسائل کے ملبے تلے دبا ہوا ہے یا پھر شکایتوں کا بارِ گراں اس کے وجود کوکھنڈر بناچکا ہے۔ سکون کے متلاشی بے سکونی کا تعاقب کر کے سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیسا المیہ ہے۔...... جن کے پاس پیسوں کے فراوانی ہے وہ بیماریوں سے پریشان ہیں۔جن کے پاس اچھی ملازمت ہے وہ بھی پرسکون نہیں ہیں۔ ان کا پروموشن رکا ہوا ہے۔ انکریمنٹ کا مسئلہ ہے۔ اچھی جگہ ملازمت نہیں ہے۔"جاب ساٹس فیکشن" کی پرابلم ہے۔ کولیگ اچھے نہیں ہیں..... جن کے پاس ملازمت نہیں ہے ان کے پاس خود کشی سے کم کوئی علاج نہیں ہے۔ جس کے پاس گھر نہیں ہے وہ بھی پریشان ہے۔ سرچھپانے کا ٹھکانا چاہیے۔ جن کے پاس مکانات ہیں، جائداد ہے، ان کی الگ پریشانی ہے۔ مقدمات میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جائداد کے جھگڑوں نے خونی رشتوں میں دوری پیدا کر دی ہے........ والدین اولاد کی نافرمانیوں سے پریشان ہیں۔ اخبارات میں خبریں چھپتی ہیں کہ بچے والدین کی جان لے رہے ہیں۔ اولاد والدین سے پریشان ہے، والدین وقت کے تقاضوں سے نابلد ہیں۔ بیشتر زوجین ایک دوسرے سے خوش نہیں ہیں۔ ہر بیوی کو دوسروں کا شوہر اور ہر شوہر کو دوسروں کی بیوی مثالی نظر آتی ہے۔ ہم مصنوعی سکون، مصنوعی خوشیوں کا تعاقب کرنے کے لیے پارکوں، سنیما گھروں، کلبوں کا رُخ کرتے ہیں۔ وقتی طور پر ملنے والی مصنوعی خوشی کو محفوظ رکھنے کے لیے مصنوعی آلہ کا استعمال کرتے ہیں۔ مصنوعی مسکراہٹوں کی سیلفیاں مسلسل ہمارا مذاق اُڑاتی ہیں۔
میں ایک عرصے سے جواب تلاش کر رہا ہوں۔ آج کا انسان اتنا مضطرب کیوں ہے؟ غریب سے زیادہ دردناک ہنسی امیر ہنس رہا ہے۔ مصنف پریشان۔ دانشور پریشان۔ صحافی، شاعر، مولوی، پنڈت، ڈاکٹر ، انجینئر، ملازمت پیشہ، بے روزگار، عورت ، مرد، بچہ، بوڑھا، جوان۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب پریشان۔ ہماری زیادہ تر گفتگو کا مرکزی عنوان"مسائل" ہے۔ مسائل کے حل کے لیے ہم جو کوششیں کرتے ہیں وہ نئے مسائل لے آتی ہیں۔ مصنف نے مسائل کے حل کے لیے کتاب لکھ ڈالی ، اب یہ کتاب نئے مسئلے پیدا کر رہی ہے۔ کتاب کی اشاعت کے بعد اختلافات پیدا ہو گئے۔ مسائل اور بھی بڑھ گئے۔ دانشور سمجھ رہا ہے کہ اُس کے پاس مسئلے کا حل ہے لیکن اُس کا بتایا ہوا حل نئے مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ صحافی مسئلہ حل کرنے کے نام پر سماج میں زہر گھول رہا ہے۔ جن کا کام امن و سکون قائم کرنا تھا وہی سب سے زیادہ بے سکونی پیدا کر رہے ہیں۔مولوی اور پنڈت کے اپنے مسائل ہیں۔ دوسروں کی جنت و جہنم کی ٹکٹ کاٹنے والا خود ساری زندگی مسائل کی بھول بھلیوں میں گھومتا رہتا ہے۔ ملازمت والوں کو اپنے سوا سب کی ملازمت آسان لگتی ہے۔بے روزگار ملک کے آخری سرے پر جا کر نوکری کرنے کو ہمہ وقت تیار ہے لیکن جیسے ہی اسے ملازمت ملتی ہے اسی کی پریشانیوں کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا ہے۔ اب اسے گھر کی ملازمت چاہیے۔ گھر سے قریب ملازمت کرنے والوں کا آرام ، اُس کا آرام حرام کر دیتا ہے۔
ہم میں سے بیشتر لوگ شکایتوں کی گٹھریاں ڈھوتے پوری زندگی تمام کر دیتے ہیں۔ اگر ہمارے پاس کوئی "مسئلہ" موضوعِ گفتگو نہ ہو تو ہم شکایت کا دفتر کھول لیتے ہیں۔ ہمارے پاس جتنے مسائل ہیں اُن سے کچھ کام شکایتیں بھی نہیں ہیں۔ گھر والوں سے شکایت، دوستوں سے شکایت، رشتہ داروں سے شکایت، پڑوسیوں سے شکایت۔ ذات سے شکایت، کائنات سے شکایت۔خالق سے شکایت، مخلوق سے شکایت۔ ہمیں رشتہ داروں سے اچھے دوست، دوستوں سے اچھے دشمن نظر آتے ہیں۔...... ہماری پریشانیاں لامتناہی ہیں۔
میں سوچتاہوں کہ اپنی قسمت پر رشک کروں لیکن کبھی کبھی تنہائی میں خود سے روبرو ہونے میں مجھے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں میرے اندر کا آپ باہر نہ آ جائے۔ پھر شاید میں اکیلا روتا رہوں گا اور ساری کائنات اپنے مسائل بھول کر میرے وجود پر ہنسے گی، اتنا ہنسے گی کہ سماعتوں پر قہقہے عذاب بن کر نازل ہونے لگیں گے۔
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें
Hamari ye post aapko kaisi lagi, apni raay comment kar ke hame zarur bataen. Post padhne k lie Shukriya 🌹