Qalam Meri Taqat

Stories, Poetries, Poems, News, How to..., Tools, Quotes, Stanza and many more...

Qalam Meri Taqat

Welcome

सोमवार, 1 अगस्त 2022

شہاب چتور کا پیدل حج کے لئے جانا جائز ہے؟ shihab chittor ka haj ke liye paidal nikalna kaisa hai

 

کیا شہاب چتور کا پیدل حج کے لئے جانا جائز ہے؟

علماء کی رائے و فتاوے  ضرور دیکھیں

موجودہ  وقت ایک شخص پیدل حج کے لئے نکلا ہے جس کا نام ہے شہاب چتور۔ جب سے شہاب چتور  حج کے لئے پیدل نکلا ہے تب سے یہ بازار گرم ہے کہ شہاب چتور کا پیدل حج کے لئے نکلاناجائز ہے یا نا جائز ۔ بے انتہا لوگ اپنی اپنی طرف سے شہاب چتور نامی اس شخص کو دعائیں دے رہے ہیں تو کچھ فتوے پہ فتوے بھی صادر کر رہے ہیں۔ اس پوسٹ میں  ہم علماء  کی رائے  فتاوے آپ کے درمیان رکھے گے۔ جنمیں دارالعلوم دیوبند کا فتوی بھی دیکھنے کو ملے گا۔

بعض  علماء شہاب چتور کے اس قدم کے سخت منکر ہیں انہوں نے نہ صرف اسے نا جائز قرار دیا ہے بلکہ اسے گناہ کے  ایک زمرے میں لا کر رکھ دیا ہے۔  آئیے دیکھتے  ہیں تین طرح کے فتاوے :

نوٹ جیسے ہی اور فتاوے بھی صادر ہوں گے انہیں اس پر ضرور اپڈیٹ کیا جائے گا یا آپ بھی کمینٹ  میں  اپنی آراء ضرر دیں۔

مقبول احمد سلفی طائف لکھتے ہیں؛

پیدل سفر کرنا نہ کوئی عبادت ہے ، اور نہ کوئی طاعت و خیر کا کام ہےجس پر مسلمان کو اجر ملے گا۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب ایک عورت نے پیدل کعبہ تک سفر کرنے کی نذرمانی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ان اللہ لغنی عن مشیھا(صحیح الترمذی:1536) یعنی اللہ تعالی اس عورت کے پیدل چلنے سے بے نیاز ہے۔

  یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ پیدل چلنا کوئی طاعت کا کام نہیں تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ نے اس عورت کوپیدل سفرکرکے بیت اللہ پہنچنے سے منع فرمایا ،اگر ایسی بات نہ ہوتی تو آپ کیوں منع فرماتےجبکہ نذر عبادت ہے اور اس کا پورا کرنا واجب ہے۔ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع سے پیدل حجاج کو منع نہیں کیا تو یہاں کیوں منع فرمایا؟

 کیا عبادت میں جسمانی تکلیف اللہ کو مطلوب ہے ؟ تو معلوم ہو کہ عبادت کا مطلب اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی بجاآوری ہے۔ اسلام نے تو ہر اس عمل سے روکا ہے جس میں جان کا خطرہ ہے ۔اب اگر دیکھیں تو کیرلا سے پاکستان، ایران، عراق اورکویت ہوتے ہوئے مکہ کا 8640 کلو میٹر کا سفر کتناطویل ہے۔ اس سفر میں بہت سارے مسائل شہاب کے لئے ہوسکتے ہیں۔ اور  اسلام ہرگز ایسی تعلیم نہیں دیتا ہے۔

رسول اللہ ﷺنے کسی صحابی یا صحابیہ کو مناسک حج کی ادائیگی پیدل کرنے سے منع نہیں فرمایا ہے بلکہ دوردرازمقامات سے بیت اللہ کا پیدل سفر کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس لئے انڈیا سے بیت اللہ کا پیدل سفر کرنا آج کے زمانے میں غلط ہے لیکن اعمال حج کی ادائیگی پیدل انجام دینا صحیح ہے اور اگر کوئی رسول کی اقتداء میں حج کے اعمال سواری کے ذریعہ انجام دے تو بھی جائز ہے۔آج سےکچھ سالوں پہلے عموما لوگ ایک مقام سے دوسرے مقام کا سفر پیدل کیا کرتے تھے، وہ اس لئے پیدل سفر نہیں کرتے تھے کہ اس پہ اجر ملے گا بلکہ سواری کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے وہ لوگ پیدل سفر حج کیا کرتے تھے۔جس کو سواری میسر تھی وہ سفر کے لئے سواری استعمال کرتے تھے۔ پھر طویل مسافتی سفر کے لئےسواری کسی کسی کو میسر ہوتی تھی اس لئے حج کے بارے میں ہم سنتے ہیں کہ فلاں فلاں نے بیت اللہ کا پیدل سفر کیا جبکہ کوئی کوئی سواری پر آیا کرتا جسے سواری نصیب ہوتی ۔ اللہ تعالی نے بیت اللہ کی طرف آنے والے اسی کیفیت کا ذکر کیا ہے”یاتوک رجالاوعلی کل ضامر”لوگ پاپیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی ۔ یہاں اللہ تعالی بندوں کو پیدل سفر کرنے کا حکم نہیں دے رہا ہے بلکہ اس زمانے کی کیفیت بیان کررہا ہے۔

پھر ایک سوال یہ بھی آتا ہے کہ  پہلے لوگ بیت اللہ کا پیدل سفر کرتےتھے تو کیا وہ غلط تھے؟

نہیں وہ غلط نہیں تھے، وہ صحیح پر تھےکیونکہ ان کے زمانے میں قدموں سے چلنا ہی اصل ذریعہ تھا۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ آدم علیہ السلام نے ایک ہزار مرتبہ پیدل سفر کرکے حج کیا تو آپ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ آدم علیہ السلام دوسری جگہوں کا بھی پیدل ہی سفر کرتے تھے۔

پیدل حج کی فضیلت میں سنن کبری للبیہقی کی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو مکہ سے پیدل حج کرے یہاں تک کہ مکہ واپس لوٹ جائے تو اللہ اس کے لئے ہرقدم پر سات سو نیکیاں لکھتا ہے اور ہر نیکی حرم کی نیکی کے برابر ہے۔ (بیہقی) اولا یہ حدیث انڈیا سے بیت اللہ تک سفر کرنے سے متعلق نہیں ہےبلکہ جہاں اعمال حج انجام دینا ہے وہاں کے لئے ہے ، ثانیا اسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف الترغیب میں موضوع قرار دیا ہے۔(ضعیف الترغیب:691)اس لئے اس حدیث سے کسی قسم کا استدلال باطل ہے۔

اب  آپ کو زبیر ندوی کی اس متعلق دئے گئے جواب سے ہو بہو واقفیت کر دیتے ہیں ۔

زبیر ندوی بہرائچ لکھتے ہیں؛

سوال: ایک شخص کیرالہ سے پیدل مکّہ معظّمہ کیجانب آئیندہ سال حج کے لئے عازم سفر ہے انکا یہ کل پیدل سفر 8000  کیلو میٹر سے زائد کا ہے جس کے  لئے 280 دن کے اہداف مقرر کئے گئے ہیں، اس درمیان نوجوان عازم حج شہاب پیدل چل کر  ہندوستان سمیت ، پاکستان، ایران ، عراق ،کویت ،ہوتے ہوئے سعودی عربیہ کا مقدس شہر مکہ معظمہ پہونچیں گے۔ اب سوال یہ ہے اس ترقی یافتہ دور میں جہاں ہوائی سفر بآسانی دستیاب ہے ایسے میں ایک شخص پْر خطر راستوں کو پیدل عبور کرکے حج کے لئے پہونچ رہا ہے جہاں خطرات و خدشات کے امکانات کافی ہیں ایسے میں انکا یہ پیدل سفر حج بیت اللہ کے لئے کہاں تک جائز و درست  ہے  کچھ لوگوں کا کہنا ہے یہ صحت مند اور نوجوان ہے انکے لئے اسطرح کا سفر کوئی مضائقہ نہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی مسئلے کا حل بتائیں اور اسطرح کے سفر کی شرعی حثیت کیا ہے دلائل کی روشنی جواب مرحمت فرمائیں عین نوازش ہوگی

الجواب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الجواب و باللہ التوفیق

قرآن مجید سے یہ بات معلوم ہوتی ہے جو شخص مکہ مکرمہ پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو اس پر حج فرض ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ حج فرض ادا کرے(١)، لیکن قرآن مجید میں موجود لفظ استطاعت سے کیا مراد ہے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے اس کی وضاحت فرمائی کہ استطاعت سے مراد زاد و راحلہ یعنی سفر میں خورد و نوش کے سامان اور پہنچنے کے لئے سواری ہو تو یہ استطاعت میں داخل ہے(٢)، گویا سواری کی قدرت نہ ہو تو حج فرض ہی نہیں ہوتا یہی بات راجح اور مفتی بہ ہے؛ چنانچہ مشہور فقہی کتاب الفتاوی الہندیۃ میں اور علامہ کاسانی کی بدائع الصنائع میں اس کی وضاحت صاف لفظوں میں موجود ہے(٣)، البتہ قرآن مجید کے بیان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حج کے لیے لوگ پیدل بھی آئیں گے اور سواری پر بھی آئیں گے   (یَأۡتُوكَ رِجَالا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِر یَأۡتِینَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِیق . الحج ٢٧) اس لیے فی نفسہ پیدل حج بھی کیا جاسکتا ہے اور اگر زاد و راحلہ پر قدرت کے باوجود کوئی شخص پیدل جاتا ہے اور حج کرتا ہے تو اس کا حج فرض ادا ہوجائے گا (بلکہ بعض روایات میں پیدل سفر حج پر زیادہ ثواب کا وعدہ بھی ہے) اور ساتھ ہی استطاعت والی حدیث شریفہ اور پیدل سفر والی آیت مبارکہ میں بظاہر تعارض نظر آتا ہے؛ لیکن فقہاء کرام (جو کہ شریعت اسلامی کے سب سے زیادہ رمز شناس ہیں) نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح اور آیت مبارکہ میں یہ تطبیق دی ہے کہ پیدل حج کی بات ان لوگوں کے لئے ہے جو مکہ یا اطراف مکہ کے رہنے والے ہیں یا اتنی دوری پر ہیں کہ بلا مشقت وہ پیدل چل کر آسکتے ہیں اور سواری پر قدرت کی شرط ان لوگوں کے لئے ہے جو مکہ سے دور کے رہنے والے ہیں، یعنی جن کے لیے پیدل سفر مشقت سے خالی نہیں ہے ، علامہ کاسانی کی تحریر اس سلسلے میں سب سے زیادہ چشم کشا ہے(٤) وہ رقم طراز ہیں:

(ﻭﻟﻨﺎ) ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ - ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ - ﻓﺴﺮ اﻻﺳﺘﻄﺎﻋﺔ: ﺑﺎﻟﺰا، اﻟﺮاﺣﻠﺔ ﺟﻤﻴﻌﺎ ﻓﻼ ﺗﺜﺒﺖ اﻻﺳﺘﻄﺎﻋﺔ ﺑﺄﺣﺪﻫﻤﺎ، ﻭﺑﻪ ﺗﺒﻴﻦ ﺃﻥ اﻟﻘﺪﺭﺓ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺸﻲ ﺗﻜﻔﻲ ﻻﺳﺘﻄﺎﻋﺔ اﻟﺤﺞ ﺛﻢ ﺷﺮﻁ اﻟﺮاﺣﻠﺔ ﺇﻧﻤﺎ ﻳﺮاﻋﻰ ﻟﻮﺟﻮﺏ اﻟﺤﺞ ﻓﻲ ﺣﻖ ﻣﻦ ﻧﺄﻯ ﻋﻦ ﻣﻜﺔ ﻓﺄﻣﺎ ﺃﻫﻞ ﻣﻜﺔ، ﻭﻣﻦ ﺣﻮﻟﻬﻢ ﻓﺈﻥ اﻟﺤﺞ ﻳﺠﺐ ﻋﻠﻰ اﻟﻘﻮﻱ ﻣﻨﻬﻢ اﻟﻘﺎﺩﺭ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺸﻲ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ اﺣﻠﺔ؛ ﻷﻧﻪ ﺣﺮﺝ ﻳﻠﺤﻘﻪ ﻓﻲ اﻟﻤﺸﻲ ﺇﻟﻰ اﻟﺤﺞ ﻛﻤﺎ ﻳﻠﺤﻘﻪ اﻟﺤﺮﺝ ﻓﻲ اﻟﻤﺸﻲ ﺇﻟﻰ اﻟﺠﻤﻌﺔ. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 122/2)

مذکورہ وضاحت سے یہ بات بالکل صاف ہوگیی کہ جو شخص سواری پر قدرت نہیں رکھتا اس پر حج فرض ہی نہیں ہوتا؛ اس لیے پیدل سفر حج جانے والا شخص اگر سواری سے حج کے اخراجات نہیں رکھتا ہے تو اولا اس پر حج فرض ہی نہیں ہے، اور جب حج فرض نہیں ہوا تو اس کا یہ حج نفلی حج ہوگا اور نفلی حج کے لیے اس قدر پرمشقت سفر گوارا کرنا تکلیف مالا یطاق اور مزاج شریعت کے خلاف ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی مشقت اور تکلف کو کبھی گوارا نہیں فرمایا اور نہ ہی اس کی حوصلہ افزائی فرمائی؛ بلکہ متعدد احادیث سے اس قسم کی جذباتی دینداری کی حوصلہ شکنی فرمائی ہے۔

چنانچہ صحیح بخاری میں روایت موجود ہے کہ ایک صاحبہ نے پیدل سفر حج کی نذر مان لی تھیں اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے سختی سے منع فرمایا(٥)، حالانکہ نذر واجب ہوجاتا ہے اس سے آپ نے منع فرمادیا تو نفلی حج بدرجہ اولی ممانعت میں داخل ہوگا، اسی طرح ایک صاحب نے حضور سی خصی ہوجانے کی اجازت چاہی تاکہ گناہ کی طرف میلان نہ ہو آپ نے اس تکلف سے بھی منع فرمایا اور فرمایا کہ روزے رکھو(٦)، ایک صاحب نے پورے دن روزے رکھنے اور پوری رات نماز پڑھنے کا تہیہ کرلیا آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے اس تکلف اور تکلیف مالا یطاق سے روکا(٧) غرض متعدد واقعات موجود ہیں جو اس سلسلے میں منشأ نبوی و مزاج نبوی کو واضح کرتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں موجود ائمہ علم و دین نے کبھی اس قسم کے سفر حج کو پسند نہیں کیا اور نہ ہی اس انداز میں عازم سفر ہوئے؛ اس لیے بطورِ خاص اس دور میں اس قسم کا اقدام قابلِ تحسین نہیں۔

اس سلسلے میں دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ موجودہ دور میں جو ملکی حد بندیاں اور سیاسی پابندیاں ہیں انہیں عبور کرنا آسان نہیں ہے، اس کے لیے ناکہ دوڑ دھوپ کی بے انتہا مشقت ہوتی ہے بلکہ اس دور میں ایک خطیر رقم کے بغیر ایسی کاغذی کاروائی کرالینا اور تمام سرحدوں کی اجازت مل جانا غالبا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا، ظاہر ہے اس قسم کی کارروائی میں اور چار پانچ ملکوں کے اجازت نامے لینے میں جتنی خطیر رقم اس کارروائی میں صرف ہوئی ہوگی اور اتنے دنوں سفر میں رہنے پر جو صرفہ آئے گا اتنی رقم کے عشر عشیر سے بذریعہ جہاز بآسانی سفر ہوسکتاہے، اب اتنی رقم اور محنت دوسری طرف استعمال کرنے کے بجائے اگر ہوائی جہاز کے سفر میں کرلیا جاتا تو سنت سے ہم آہنگی بھی ہوتی اور سفر کی کلفت بھی جاتی رہتی، اس لیے کہ فقہاء نے بصراحت تمام لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص سواری کے ذریعے اور پیدل دونوں طور پر سفر حج پر قادر ہو تو سواری کے ذریعے سفر افضل ہوگا، امام نووی نے لکھا ہے اس میں سنت کی متابعت بھی ہے اور أرکان کی ادائیگی میں سہولت کا باعثِ بھی(٨) مشہور مفسر علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ اکثر أہل علم کے نزدیک دور دراز کے حضرات کا سواری پر سفر کرکے آنا افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود کمال قوت اور حرص عبادت و تقوی و عبودیت کے سواری پر سفر کیا(٩)۔ اس لیے پیدل سفر کے بجائے بطورِ خاص اس دور میں ہوایی جہاز کا سفر أفضل اور موافق سنت ہوگا۔

تیسری ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ حج کی فرضیت اور سفر حج پر جانے کی شرائط میں سے ایک اہم شرط راستے کا پر امن ہونا اور آدمی کی جان و مال اور عزت و آبرو کا محفوظ ہونا بھی ہے(١٠)، اب ظاہر ہے اتنے لمبے سفر میں وہ بھی تنہا سفر کس قدر حد معقولیت سے گزری ہوئی بات ہے، اتنے لمبے سفر میں ہرج و مرض کا پیش آنا، حشرات الارض یا جانور کا حملہ کردینا یا مسلم دشمن عناصر کا غلط فائدہ اٹھا لینا پھر تنہا چلنا اور سونا، نیز مختلف راستوں اور لوگوں سے ملنا اور ان کی زبان سے ناآشنائی کی مشقت ہونا کس قدر صبر آزما اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہوتا ہے اس لیے حکومت باضابطہ ایسے اسفار کے لیے پولیس اور سرکاری اہلکار متعین کرتی ہے اور اس کے لیے ایک خطیر رقم دینی پڑتی ہے۔ ظاہر ہے اس میں سرکاری افسران سے کاروائی میں ہر طرح سے رقم دینی پڑتی ہے جو بسا اوقات عدم جواز کے دائرے میں آجاتی ہے۔

 خیر مذکورہ بالا باتیں تو قانونی اور فقہی و شرعی حیثیت سے تھیں لیکن اگر کوئی حقیقی عاشق اپنی تسکین عشق و محبت کے لئے پیدل سفر کو ترجیح دیتاہے تو شرعاً ناکہ صرف درست ہے بلکہ بعض روایات کے مطابق زیادہ باعثِ ثواب ہے، چنانچہ اگر وہ صاحب سفر حج کے لیے نکل چکے ہیں اور تمام کاغذی کاروائی مکمل ہے تو دعاء ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوں اور دیار مقدس میں اپنا حج مبرور ادا کرکے سالما غانما واپس آئیں کیوں کہ فقہ کا قاعدہ ہے البقاء اسھل من الابتداء(١١)  فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔

📚والدليل على ما قلنا 📚

(١) ﻭﻟﻠﻪ ﻋﻠﻰ اﻟﻨﺎﺱ ﺣﺞ اﻟﺒﻴﺖ من استطاع إليه سبيلا [ ﺁﻝ ﻋﻤﺮا: 97]

(٢) عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا يُوجِبُ الْحَجَّ ؟ قَالَ : " الزَّادُ، وَالرَّاحِلَةُ ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً وَجَبَ عَلَيْهِ الْحَجُّ.  (سنن الترمذي رقم الحديث 813)

 

(٣) (ﻭﻣﻨﻬﺎ اﻟﻘﺪﺭﺓ ﻋﻠﻰ اﻟﺰا اﻟﺮاﺣﻠﺔ) ﺑﻄﺮﻳﻖ اﻟﻤﻠﻚ ﺃﻭ اﻹﺟﺎﺭﺓ ۔۔۔۔ ﻭﺗﻔﺴﻴﺮ ﻣﻠﻚ اﻟﺰا اﻟﺮاﺣﻠﺔ ﺃﻥ ﻳﻜﻮﻥ ﻟﻪ ﻣﺎﻝ ﻓﺎﺿﻞ ﻋﻦ ﺣﺎﺟﺘﻪ، ﻭﻫﻮ ﻣﺎ ﺳﻮﻯ ﻣﺴﻜﻨﻪ ﻭﻟﺒﺴﻪ ﻭﺧﺪﻣﻪ، ﻭﺃﺛﺎﺙ ﺑﻴﺘﻪ ﻗﺪﺭ ﻣﺎ ﻳﺒﻠﻐﻪ ﺇﻟﻰ ﻣﻜﺔ اﻫﺒﺎ ﻭﺟﺎﺋﻴﺎ اﻛﺒﺎ ﻣﺎﺷﻴﺎ (الفتاوى الهندية 217/1 كتاب المناسك دار الكتب العلميه بيروت)

ﻭﻣﻨﻬﺎ ﻣﻠﻚ اﻟﺰا، اﻟﺮاﺣﻠﺔ ﻓﻲ ﺣﻖ اﻟﻨﺎﺋﻲ ﻋﻦ ﻣﻜﺔ. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 122/2 كتاب الحج دار الكتب العلميه بيروت)

(٤) (ﻭﻟﻨﺎ) ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ - ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ - ﻓﺴﺮ اﻻﺳﺘﻄﺎﻋﺔ: ﺑﺎﻟﺰا، اﻟﺮاﺣﻠﺔ ﺟﻤﻴﻌﺎ ﻓﻼ ﺗﺜﺒﺖ اﻻﺳﺘﻄﺎﻋﺔ ﺑﺄﺣﺪﻫﻤﺎ، ﻭﺑﻪ ﺗﺒﻴﻦ ﺃﻥ اﻟﻘﺪﺭﺓ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺸﻲ ﺗﻜﻔﻲ ﻻﺳﺘﻄﺎﻋﺔ اﻟﺤﺞ ﺛﻢ ﺷﺮﻁ اﻟﺮاﺣﻠﺔ ﺇﻧﻤﺎ ﻳﺮاﻋﻰ ﻟﻮﺟﻮﺏ اﻟﺤﺞ ﻓﻲ ﺣﻖ ﻣﻦ ﻧﺄﻯ ﻋﻦ ﻣﻜﺔ ﻓﺄﻣﺎ ﺃﻫﻞ ﻣﻜﺔ، ﻭﻣﻦ ﺣﻮﻟﻬﻢ ﻓﺈﻥ اﻟﺤﺞ ﻳﺠﺐ ﻋﻠﻰ اﻟﻘﻮﻱ ﻣﻨﻬﻢ اﻟﻘﺎﺩﺭ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺸﻲ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ اﺣﻠﺔ؛ ﻷﻧﻪ ﺣﺮﺝ ﻳﻠﺤﻘﻪ ﻓﻲ اﻟﻤﺸﻲ ﺇﻟﻰ اﻟﺤﺞ ﻛﻤﺎ ﻳﻠﺤﻘﻪ اﻟﺤﺮﺝ ﻓﻲ اﻟﻤﺸﻲ ﺇﻟﻰ اﻟﺠﻤﻌﺔ. (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع 122/2)

(٥) عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ نَذَرَتِ امْرَأَةٌ أَنْ تَمْشِيَ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ، فَسُئِلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ : " إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيٌّ عَنْ مَشْيِهَا، مُرُوهَا فَلْتَرْكَبْ ". (سنن الترمذي رقم الحديث 1536 أَبْوَابُ النُّذُورِ وَالْأَيْمَانِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.  | بَابٌ : مَا جَاءَ فِيمَنْ يَحْلِفُ بِالشَّيْءِ وَلَا يَسْتَطِيعُ)

(٦)عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ : جَاءَ شَابٌّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ : أَتَأْذَنُ لِي فِي الْخِصَاءِ، فَقَالَ : " صُمْ، وَسَلِ اللَّهَ مِنْ فَضْلِهِ ". (مسند أحمد 15036 مُسْنَدُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ)

(٧) قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " يَا عَبْدَ اللَّهِ، أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ النَّهَارَ وَتَقُومُ اللَّيْلَ ؟ ". قُلْتُ : بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : " فَلَا تَفْعَلْ، صُمْ وَأَفْطِرْ، وَقُمْ وَنَمْ ؛ فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا ". (صحيح البخاري رقم الحديث 5199 كِتَابُ النِّكَاحِ  | بَابٌ : لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ)

 

(٨)قال المصنف رحمه الله تعالى ( ومن قدر على الحج راكبا وماشيا ، فالأفضل أن يحج راكبا { ; لأن النبي صلى الله عليه وسلم حج راكبا } ; ولأن الركوب أعون على المناسك ) (المجموع شرح المهذب للنووي 74/7)

 

(٩) وَقَوْلُهُ: ﴿يَأْتُوكَ رِجَالا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ﴾ قَدْ يَستدلّ بِهَذِهِ الْآيَةِ مَنْ ذَهَبَ مِنَ الْعُلَمَاءِ إِلَى أَنَّ الْحَجَّ مَاشِيًا، لِمَنْ قَدَرَ عَلَيْهِ، أفضلُ مِنَ الْحَجِّ رَاكِبًا؛ لِأَنَّهُ قَدَّمَهُمْ فِي الذِّكْرِ، فَدَلَّ عَلَى الِاهْتِمَامِ بِهِمْ وَقُوَّةِ هِمَمِهِمْ وَشِدَّةِ عَزْمِهِمْ، وَالَّذِي عَلَيْهِ الْأَكْثَرُونَ أَنَّ الْحَجَّ رَاكِبًا أَفْضَلُ؛ اقْتِدَاءً بِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ، فَإِنَّهُ حَجَّ رَاكِبًا مَعَ كَمَالِ قُوَّتِهِ، عَلَيْهِ السَّلَامُ. (تفسیر ابن کثیر الحج ٢٧)

 

(١٠) (ﻭﻣﻨﻬﺎ ﺃﻣﻦ اﻟﻄﺮﻳﻖ) ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ اﻟﻠﻴﺚ ﺇﻥ ﻛﺎﻥ اﻟﻐﺎﻟﺐ ﻓﻲ اﻟﻄﺮﻳﻖ اﻟﺴﻼﻣﺔ ﻳﺠﺐ، ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﺧﻼﻑ ﺫﻟﻚ ﻳﺠﺐ ﻭﻋﻠﻴﻪ اﻻﻋﺘﻤﺎﺩ ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﺘﺒﻴﻴﻦ. (الفتاوى الهندية 218/1 كتاب المناسك دار الكتب العلميه بيروت)

(١١) مجلة الأحكام العدلية

 

كتبه العبد محمد زبير الندوي

دار الافتاء و التحقیق بہرائچ یوپی انڈیا

مورخہ 24/12/1443

رابطہ 9029189288

 

اب اخیر میں علماء دیوبند کا جاری فتوی بھی آپ کودکھایا جارہا ہے ۔

دیوبند کے فتوے کی کاپی




 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें

Hamari ye post aapko kaisi lagi, apni raay comment kar ke hame zarur bataen. Post padhne k lie Shukriya 🌹