اردو
غزل کی مقبولیت
ہم سے پوچھو کہ غزل کیا ہے غزل کا فن کیا
چند لفظوں میں کوئی آگ چھپا دی
جائے
یوں تو غزل کے تعارف سے تمام محبان اردو بخوبی
واقفیت رکھتا ہے۔ مگر چونکہ” اردو غزل کی مقبولیت “
موضوع زیر بحث ہے تو قبل اس کے کہ غزل کی مقبولیت پر روشنی ڈالی جائے غزل کا تعارف کرنا ضروری ہے۔
غزل
اردو کے اصناف نثر اور نظم میں سے صنف نظم میں شمولیت رکھنے والی صنف ہے ۔ جس کے لغوی
معنیٰ عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کے منتعلق باتیں کرنا ہےاور اپنے اسی معنوی
کردار کی وجہ سے غزل نہایت ہی مقبول ترین صنف شاعری ہے۔ معنی کے لحاظ سے ایک بات
اور جو ہمیں ذہن نشیں رکھنی چاہیے کہ اردو ادیب کے مطابق ہرن کے بچے کے منہ سے نکلنے والی درد بھری آواز
کو بھی غزل کا ہی نام دیا گیا ہے۔
ہیت کے لحاظ سے اگر غزل
کی بات کروں تو غزل چند اشعار پر مشتمل ہوا کرتی ہے جس کا ہر شعر ہم قافیہ یا ہم
ردیف یا کم از کم ہم قافیہ تو ضرور ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں غزل میں مطلع و مقطع،
مضمون و تخلص وغیرہ سے متعلق بھی بہت ساری پابندیاں یا یوں کہہ لیں کہ اصول و
ضوابط ہوتے ہیں جیسے غزل
اوزان میں لکھی جاتی ہے۔ غزل اشعار کا مجموعہ ہوتی ہے ، مطلع کے علاوہ غزل کے باقی
تمام اشعار میں قافیہ اور ردیف کی قید نہیں
ہوتی ہے۔ غزل کا پہلا شعر مطلع و آخری شعر مقطع کہلاتا ہے ، مقطع کے شعر میں شاعر اپنا
شاعری نام(تخلص) کا استعمال کرتا ہے۔ وغیرہ
غزل کی معمولی تشریح و توضیح
کے بعد اس شعر کے ساتھ غزل کی مقبولیت پر روشنی ڈالتا ہوں کہ ؛
بے جا بھٹک رہے ہو کدھر ادھر تو آ
ہے وقت کا تقاضہ اصل مقصد پہ بات کر
سرزمین ایران سے ہو کر ہندوستان کی سرزمین تک پہونچنے والی اس
صنف نے اپنی ارتقاء کے ابتدائی مراحل دکن میں طئے کئے ۔ اور وہیں قلی قطب شاہ کو
دکن کا پہلا شاعر بنایا ۔بعدہٗ اسی دکن سے غزل نے سراج اورنگ آ بادی ، اور ولی
دکنی جیسوں کو نمایاں مقام عطا کیا ۔پھر اردو شاعری کا سلسلہ ہی شروع ہو گیا اور
یکے بعد دیگرے متعدد شعراء آتے گئے اور اس
لڑی میں خود کو پروتے چلے گئے ۔ کبھی میر ؔتو کبھی سوداؔ کبھی آتشؔ تو کبھی حسرتؔ
، کبھی غالبؔ تو کبھی اقبالؔ کبھی جگرؔ تو کبھی فراقؔ اس کی لپٹ ایسی لگی کوئی بھی
اس کی لپٹ سے بچ نہ سکا ۔ بلا تفریق مذہب و ملت سب نے اس صنف کو جہاں ایک طرف بلندی
پر پہونچایا تو اس صنف نے بھی سبھی کو ایک نہایت ہی نمایاں مقام عطا
کیا ۔
اردو کے اس صنف شاعری میں
حالانکہ غزل کے علاوہ قصیدے، نظمیں مرثیے
وغیرہ نے بھی اپنی پہچان بنانے کی کوشش کی مگر جو مقبولیت غزل کو حاصل ہوئی وہ کسی
اور صنف کو نہ ہو سکی۔ اور پھر کہتے ہیں
نا کہ آپ جب بلندیوں کو پہونچو گے تو آپ کے قدم کھینچنے اور گرانے کی کوشش کی جائے
گی اور ایسا ہی کچھ غزل کے ساتھ بھی ہوا۔ اپنی مقبولیت کے درمیان غزل کو تنقیدوں کا
بھی شکار ہونا پڑا۔اسی سلسلے میں حالیؔ نے
جہاں غزل میں 'سنڈاس کی بو' محسوس کی، تو کلیم الدین احمد نے غزل کو' نیم وحشی صنف
' قرار دے دیا ۔ عظمت اللہ خان نے تو تمام حدیں پار کرتے ہوئے غزل کی 'گردن تک اڑا
دینے' کی بات کہہ ڈالی ۔جس کے بعد بہت
ممکن تھا کہ غزل ان تنقید کا شکار ہو کر
فرش پر آ گرے گی مگر غزل نے ان سب کی پروا
کئے بغیر اپنی مقبولیت کا لوہا منوایا اور اپنی عظمت کا ایسا احساس دلایا کہ اب اس کے
خلاف لب کشائی کرنے کی کوئی جرءات بھی نہیں کر سکتا ۔
غزل کی مقبولیت کا سب سے
بڑا راز اس میں جذبئہ عشق کا پایا جانا
ہے۔ اور یہ جذبۂ عشق ایسا جذبہ ہے جس میں ہر کس و ناکس کا دل ملوث ہوتا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا دل نہیں ہوگا
جو اس جذبے سے خالی ہو۔ عشق کی دو قسمیں ہیں عشق مجازی و عشق حقیقی۔ عشق مجازی
یعنی وہ عشق جو کسی انسان، شئے، ملک یا
قوم وغیرہ سے کی جائے اور عشق حقیقی یعنی وہ عشق جو
خالق کائنات سے کی جائے اور دنیا کا
ہر انسان کسی نہ کسی عشق میں مبتلا ضرور ہوتا ہے۔
غزل کی مقبولیت کی ایک
اہم وجہ یہ بھی ہے کہ غزل باآسانی کہی جا سکتی ہے اور ذرا بھی موزوں طبیعت شخص اسے
با آسانی کہہ لےگا ۔ جو اس کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ بنتی ہے۔
علاوہ ازیں غزل کا انداز
بیاں بھی اس کی مقبولیت میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ غزل جس انداز بیاں سے کہی
جاتی ہے وہ سیدھے انسان کے دل پر نقش کر جاتی ہے اور انسان ان احساسات سے ایسا
محظوظ ہوتا ہے کہ وہ اسے کبھی نہیں بھول پاتا ۔وہ احساسات و خیالات اسے ہمیشہ کے
لئے ذہن نشین ہو جاتےہیں ۔
گانوں کی دنیا میں تو
ٖغزل نے جو کردار ادا کیا ہے دوسری کوئی
بھی صنف کبھی بھی اس کی جگہ لینا تو دور برابری بھی نہیں کرسکتی
۔ اگر ہم یو ں کہیں کہ بغیر اردو غزل کے تعاون کے گانوں کی رونق ادھوری ہے تو شاید بے جا نہ ہوگا۔
غزل کی مقبولیت کی ایک
اہم وجہ سامعین کو اکتاہٹ محسوس نہ ہونے دینا بھی ہے ۔ ایک ہی محفل اور ایک ہی
مجلس میں اگر چند افسانے نظمیں یا دیگر کوئی بھی صنف پڑھی جائے تو تھوڑے وقت کے
بعد سامعین اکتاہٹ محسوس کرنے لگتے ہیں مگر غزل ایک ایسی صنف ہے کہ اسے جتنی بھی
دیر پڑھا جائے سامعین کبھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتے بلکہ ہر پہلے شعر کے بعد دوسرے
شعر کے سننے کی للک پہلےسے زیادہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔
بہر حال
اردو غزل کی مقبولیت کے جو اسباب ہم نے بیان کئے یہ تو اس سلسلے کی بس ایک کڑی ہے
اس کے علاوہ اور بھی مزید اسباب جیسے ہر
شعر کا خود میں افسانہ ہونا ، مشاعرے وغیرہ کی محفلوں کی اصل زینت غزل کا ہونا
وغیرہ اردو غزل کی مقبولیت کو بیان کرتے ہیں اور اس کی
مقبولیت کی وجہ بنتے ہیں۔
غزل ہے آن ، غزل ہے
جان، غزل ہی میری شان ہے
یہ چیخ کر کہہ رہی ہے
اردو غزل مری پہچان ہے
ریحان ؔ
٭٭٭
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें
Hamari ye post aapko kaisi lagi, apni raay comment kar ke hame zarur bataen. Post padhne k lie Shukriya 🌹