تاثیر کیا ہے
*✍️کامران غنی صبا*
تاثیر |
"دولتِ تاثیر" نہ ہو تو الفاظ کی اپنی کوئی اہمیت نہیں ہوتی. یہ خدا کا وہ انعام ہے جو خاص بندوں کو عطا کیا جاتا ہے. یہ انعام جن بندگان خاص کو عطا ہوتا ہے ان کے الفاظ میں غیر معمولی تاثیر پیدا ہو جاتی ہے. بلکہ بسا اوقات یہ تاثیر لفظوں کی محتاج بھی نہیں رہتی. اشارے اور خاموشی کی زبان کی اپنی الگ تاثیر ہوتی ہے. پھر اقبال کے الفاظ میں نگاہوں کے فیض (تاثیر) سے تقدیریں بدلنے لگتی ہیں.
تاثیر کا معاملہ بڑا عجیب ہے. دو استاد ہیں. دونوں کی تعلیمی استعداد ایک ہے، دونوں اپنے فن میں ماہر. دونوں ایک ہی موضوع پر لکچر دے رہے ہیں لیکن ایک کا اندازِ تدریس اتنا مؤثر کہ طلبا وقت سے بے نیاز اور دوسرے کا لکچر بار بار گھڑی دیکھنے کے باوجود مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لیتا.
دو مقرر.... دونوں علم کے آفتاب و ماہتاب لیکن ایک کو سننے کی حسرت دوسرے کو سن کر وحشت
لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد. لیکن گنتی کے چند اہل قلم جن کی تحریروں کا ہمیں بے صبری سے انتظار ہو........
تاثیر کی دولت صرف علم سے حاصل نہیں ہوتی ہے. عہدہ و منصب اور انعامات و اعزازات بھی ہماری تحریر و تقریر میں تاثیر پیدا نہیں کر سکتے ہیں. بسا اوقات بڑے عہدہ داروں کی تقریریں بہت کان لگا کر سنی جاتی ہیں. ان کی تحریروں کو اہمیت دی جاتی ہے لیکن عہدہ و منصب ختم ہونے کے ساتھ ہی یہ "وقتی تاثیر" بھی ختم ہو جاتی ہے. بڑے بڑے اعزاز یافتہ اور انعام یافتہ مصنفین اور مقررین کی باتیں تاثیر سے خالی ہوتی ہیں.
تاثیر عطائے الہی ہے. یہ ہمارے رویے کے مطابق عطا کی جاتی ہے. قول و فعل کے تضاد کے نتیجے میں تاثیر کی دولت چھین لی جاتی ہے، بس پرشکوہ الفاظ رہ جاتے ہیں، اس حسین کی طرح جس کے جسم سے روح نکل چکی ہو.
تاثیر کی دولت اپنے وجود کی نفی کے بغیر نہیں مل سکتی. اپنی گفتگو، اپنی بات، اپنے کارنامے اپنی حصولیابی اور اپنے قصائد پڑھنے والی زبانوں سے تاثیر چھین لی جاتی ہے. "حصارِ میں" سے نکلے بغیر تاثیر کا سوال صوفیاء کے یہاں حرام ہے.
بے نیازی اور بے ریائی کا حسن لفظوں میں تاثیر پیدا کرتا ہے. مفادات سے بے نیاز اہل قلم اور اہل زباں لذتِ تاثیر سے آشنا ہوتے ہیں. مفاد تصنع پیدا کرتا ہے اور تصنع تاثیر کو کھا جاتا ہے. تاثیر آشنا زبان تصنع سے خالی ہوتی ہے. تاثیر آشنا قلم سے لکھی ہوئی تحریریں دل پر نقش ہوتی ہیں.
رویہ زبان و قلم میں تاثیر عطا کرتا ہے. کوئی بھوکا اگر ہمارے پاس بھوک کا سوال لے کر آئے اور ہم اسے دیر و حرم میں سجدے کے اسرار و رموز سمجھانے لگ جائیں تو اسرار "پُر اسرار" ہو جاتے ہیں. بھوکے کی بھوک مٹانے کے بعد جو بات کہی جائے اس میں تاثیر ہوتی ہے.
دنیا کی سب سے عظیم شخصیت جن کے پاس تاثیر کی سب سے بڑی دولت تھی، ہمارے نبی پاک رحمت للعالمین ہیں. آپ کے پاس اگر کوئی بھوکا، کوئی غمزدہ، کوئی پریشان حال آتا تو آپ اس سے یہ نہیں کہتے کہ پہلے نماز پڑھ آؤ پھر تمہارا مسئلہ دیکھا جائے گا. ہمارے پاس اگر کوئی اپنا مسئلہ لے کر آئے تو اسے یوں ڈراتے ہیں گویا عذاب و ثواب کے جملہ حقوق ہمارے پاس محفوظ ہیں...... "اچھا.... ! نماز نہیں پڑھو گے تو ایسے ہی پریشانیوں میں مبتلا رہو گے، روزہ نہیں رکھو گے تو اسی طرح مسئلوں میں گھرتے رہو گے." اب اگر وہ پریشان حال بھائی کوئی مدد مانگ لے، کہیں ساتھ چلنے کو بول دے، کچھ پیسوں کا سوال کر دے تو ہم اپنی نصیحتوں سمیت وہاں سے فرار ہو جانے میں عافیت محسوس کرتے ہیں.
سامع اور قاری کے رویے کو سمجھے بغیر تحریر وتقریر میں تاثیر پیدا نہیں کی جا سکتی ہے. ہم جس سے مخاطب ہیں اس کے معیار کو اپنے معیار میں ضم کرنے کے بعد ہی ہم اپنی گفتگو میں تاثیر پیدا کر سکتے ہیں، ورنہ الفاظ خواہ وہ تحریری صورت میں ہوں یا تقریری محض "تھونپنے" کے کام آئیں گے.
آج کے عہد میں ترسیل کے ذرائع اس قدر آسان ہو گئے ہیں اس کے باوجود ہم کسی کی تحریر پڑھنے کے لیے پہلے کی طرح بے چین نہیں ہوتے. مصنفین کی تصانیف، مقررین کی تقریریں، اساتذہ کے لکچرز، واعظین کے وعظ، مصلحین کی نصیحتیں، قائدین کے احکامات، سماعت سے ہو کر دل تک نہیں پہنچ پاتے، اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ ہماری تحریر و تقریر میں صرف الفاظ باقی رہ گئے ہیں "لذت تاثیر" نہیں.
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें
Hamari ye post aapko kaisi lagi, apni raay comment kar ke hame zarur bataen. Post padhne k lie Shukriya 🌹