Qalam Meri Taqat

Stories, Poetries, Poems, News, How to..., Tools, Quotes, Stanza and many more...

Qalam Meri Taqat

Welcome

मंगलवार, 22 नवंबर 2022

کیا ہم واقعی ڈپریسڈ ہیں؟ ڈپریشن کی اصل وجوہات کیا ہیں ؟

Depression, qalammeritaqat, qalam meri Taqat depression,

 ڈپریشن

کیا ہم واقعی ڈپریسڈ ہیں؟ ڈپریشن کی اصل وجوہات کیا ہیں ؟

ازقلم: عیان ریحانؔ حاجی پور، بہار

پچھلے کئی روز سے ایک موضوع "ڈپریشن" میری نظر سے بار بار گزر رہا تھا۔ کئی سمینار تو کئی سارے پروگرام اس موضوع پر متواتر ہوتے چلے جا رہے تھے جنہیں اولاً تو میں نے محض اتفاقی موضوع سمجھ کر نظر انداز کیا مگر جب کئی مستند اہل قلم حضرات کو بھی اس جانب متوجہ پایا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ اتفاقی نہیں بلکہ موجودہ وقت کا شاید بہت ہی اہم موضوع ہے۔ اس موضوع کی اہمیت کا پتہ تب چلا جب ڈبلیو۔ ایچ۔ او۔ نے اپنی رپورٹ میں اسے ایک نہایت ہی قابل غور و فکر موضوع قرار دے کر اس کی جانب پیش قدمی کی اور لوگوں کو اس سے متنبہ کرنے کی گزاش کی۔ اس نے بتایا کہ ڈپریشن ایک ایسا مرض ہے جو لوگوں کو نہایت تیزی سے اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔ موجودہ وقت میں دنیا میں سب سے زیادہ ڈپریشن سے متاثر انڈیا کے لوگ ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کا ہر تیسرا شخص اس سے متاثر ہے جسے اگر تعداد میں کہا جائے تو ہندوستان کی تقریباً 43 کروڑ آبادی اس سے متاثر ہو چکی ہے۔ پوری دنیا میں 300 ملین سے زائد افراد اس کا شکار ہیں جو اس بات پر دلالت کرنے کو کافی ہے کہ ڈپریشن اب کوئی چھوٹا موضوع یا مرض نہیں رہا کہ جسے نظر انداز کیا جا سکے بلکہ یہ اب ایسا مرض بن گیا ہےجس کی جانب قدم بڑھانا اور اس سے بچاؤ کرنا و کروانا ہم سبھوں کے لیے نہایت ہی ضروری ہے۔ ہر سال تقریباً 8 لاکھ لوگ صرف ڈپریشن کی وجہ سے خود کشی کر کے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔ لہذا اس جانب ہم نے اگر آج پیش قدمی نہیں کی اور اس کا حل وقت رہتے نہیں نکالا تو پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ اعداد کب دو گنا اور کب دس گنا ہو جائے جس کی ہمیں خبر بھی نہ ہونے پائے۔ بلکہ بہت ممکن ہے کہ اس مہلک مرض کا علم ہیںن تب ہو جب ہمارے اپنے یا ہم خود اس کا شکار ہو جائیں۔

اس مہلک اور خطرناک لفظ "ڈپریشن" پر باتیں کرنے سے پہلے اول تو ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ ڈپریشن اصل میں ہوتا کیا ہے ؟

ڈپریشن جسے اردو میں "ذہنی تناؤ" کہتے ہیں یہ بلکل اپنے نام کے معنی کے مطابق ذہن کو ہمیشہ تناؤ میں رکھتا ہے۔ ہمارا ذہن اسی تناؤ کی وجہ سے ہر وقت ہمیں پریشان کرتا ہے ۔ ڈپریشن کو اگر اور بھی آسان لفظوں میں سمجھیں تو پریشانی کی وہ انتہا جو ایک وقت ہماری ہر طرح کی خواہ اچھی ہو یا بری تمام امیدوں کو بالکل ختم ہی کر دیتی ہے ڈپریشن کہلاتی ہے ۔ مشہور قول کے مطابق 'امید پر دنیا قائم ہے' جیسے ہی ہماری امیدیں ختم ہو جاتی ہیں ہم ڈپریشن کے شکار ہو جاتے ہیں اور بسا اوقات ہم ڈپریشن کی انتہا میں اس قدر آگے پہونچ جاتے ہیں کہ پھر ہم خود کی ہی زندگی کو تباہ وبرباد و ختم کر دیتے ہیں۔

ہم اپنی زندگی کا مشاہدہ کریں تو ڈپریشن کی وجہ شاید پریشانیوں کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے اور پریشانیاں یہ ایسی شئے ہے جو ہمارے پیدا ہونے سے شروع ہو کر جب تک ہم زندہ رہتے ہیں، ہماری آخری سانس تک ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ ہماری سانسوں کی طرح پریشانیاں بھی ہماری زندگی کا ایک اہم حصہ بنی رہتی ہے ۔ پریشانی کی اگر وضاحتی طور پر تعریف کی جائے تو اپنی خواہشات کو پورا کرنے کی چاہ میں کوشش کرنا، جی جان سے خود کو لگا دینا مگر اس کے بعد بھی ان خواہشات کا پورا نہ ہونا یا ان خواہشات کی تکمیلیت کے لیے کی گئی کوشش کے راستے مںی آنے والی مشکلات کو ہی پریشانی کہتے ہیں۔ اب ہم دیکھیں کہ ہماری خواہشات ہمارے پیدا ہونے کے بعد سے لے کر ہماری آخری سانس تک کیا کبھی ختم بھی ہوتی ہے؟ 

ابھی ہم پیدا ہوئے نہیں ، ابھی ہم نے آنکھیں کھولی نہیں کہ ہماری خواہشیں شروع ہو گئیں۔ پیدا ہوتے ہی ہمیں گرم انوائرمنٹ چاہیے تاکہ ہم اپنی جسمانی ٹیمپریچر کو جو 9 مہینے سے ہماری چل رہی تھی اس مطابق خود کو ڈھال سکیں، پھر جیسے ہی یہ خواہش پوری ہوئی ہمیں بھوک لگتی ہے اور کھانے کی خواہش ہوتی ہے ۔ جب بھوک اپنے شباب پر آ پہونچتا ہے تو اس خواہش کی تکمیلیت کے لئے ہم رونا شروع کر دیتے ہیں اور جب تک ہماری خواہش پوری نہیں ہو جاتی ہمیں سکون میسر نہیں ہوتا۔ اگر سکون ملا بھی تو کتنا ؟ بس عارضی سا سکون ، پھر قضائے حاجت اور بھوک کی جب بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے ہم پھر سے اپنی ان خواہشات کی تکمیلیت کے لئے پریشان ہو کر رونا شروع کر دیتے ہیں ۔ ہماری خواہشات کا یہ سلسلہ تب سے جو شروع ہوتا ہے پھر تاحیات چلتا رہتا ہے ۔ وقت کے ساتھ خواہشیں بدلتی ضرور ہیں مگر ختم نہیں ہوتی ۔ کبھی گود کی خواہش تو کبھی چاکلیٹ کی خواہش، کبھی کھلونوں کی خواہش تو کبھی کپڑوں کی خواہش، کبھی اعلیٰ اسکول و اسکول کی کتابوں کی خواہش تو کبھی ہوم ورک بنوا دینے کی خواہش، کبھی چھٹی کی خواہش تو کبھی گھومنے جانے کی خواہش۔ پھر جیسے جیسے اور بڑے ہوتے ہیں خواہشات بدلتی رہتی ہے۔ اب عمدہ ہائی اسکول کی خواہش تو عمدہ کوچنگ کی خواہش، عمدہ و لذیذ کھانے کی خواہش تو عمدہ کپڑوں کی خواہش، عمدہ کالجز کی خواہش تو دوست و احباب و رشتہ دار کی خواہش۔ عمر اور بڑھتی ہے پھر ہم نوکری ، بزنس ، گاڑی، اچھے رشتے ، بیمار ہونے پر اچھے ہاسپیٹل، حسب ضرورت اچھے وکلاء ، انجنیرز، ڈاکٹر، وغیرہم ساری چیزوں کی خواہش کرتے رہتے ہیں۔ حتٰی کے زندگی کے آخری دور میں جب ہم خود سے کھا، پی بھی نہیں سکتے ہوں تب بھی ہماری اور لمبی عمر پانے کی خواہش رہتی ہے اور یہ خواہشات جب تک ہماری آنکھیں بند نہ ہو جائیں، ہم اس دار فانی سے دار بقا کو کوچ نہ کر جائیں ،ختم نہیں ہوتی ۔

اب سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ کیا ہماری ہر ایک خواہشات پوری ہو سکتی ہے؟ وہ بھی بغیر مشکلات کا مقابلہ کیے؟ اور اگر بالفرض ایسا ہو بھی جائے کہ ہماری ساری خواہشات ذہن میں آتے ہی بغیر مشکلات کا مقابلہ کیے پوری ہو جائیں تو کیا ہم خدا نہیں بن جائیں گے؟ کیوں کہ 'کن فیکون' کی صفت تو خدائے تعالیٰ کی ہے۔ 

ہم اگر خود کو انسان مانتے ہیں ، خالق نہیں مخلوق سمجھتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ انسان کے ذہن میں پہلے خواہشات آتی ہیں، پھر انسان ان خواہشات کی تکمیلیت کے لیے مسلسل کوششیں کرتا ہے، کوشش کی راہوں میں مشکلات آتی ہیں جس سے مقابلے کے بعد بسا اوقات کامیابی تو کبھی ناکامی بھی انسان کا مقدر ہوتی ہے۔ جیسے ہر سکے کے دو پہلو ہوتے ہیں ویسے ہی ہر کوشش کے بھی دو نتائج ہوتے ہیں ، کامیابی یا پھر ناکامی۔ آج قصہ یہ ہے کہ جب ہم کامیاب ہوتے ہیں تو سجدہ شکر کا تو ہمیں خیال بھی نہیں ہوتا مگر جےسک ہی ناکامی ہمارا مقدر بنتی ہے ہم پریشان ہونا شروع کر دیتے ہیں۔ ان مشکل راہوں اور راہ میں آنے والی مشکلات کو کوسنا شروع کر دیتے ہیں، اپنی قسمت اور قسمت بنانے والے سے شکایت کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ناکامی کے اسباب ڈھونڈنے اور اس سے محتاط رہ کر دوبارہ مقابلہ کر کے کامیاب ہونے کی راہ تلاشنے کے بجائے اس ناکامی میں قسمت اور مشکلات کو کوس کر خود کو اس قدر الجھا لیتے ہیں کہ ہم میں پھر سے نا کبھی دوبارہ کوشش کرنے کی ہمت باقی رہتی ہے اور نا ہی آگے بڑھ کر نئے سرے ، نئے جوش و جذبے سے کوشش کو انجام دینے کی طاقت بچتی ہے۔ ہم اپنی ان ناکامیوں پر پریشان، پریشان اور صرف پریشان ہی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب یہی پریشانی آگے چل کر ہماری ڈپریشن کا سبب بنتی ہے اور ہم اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیتے ہیں۔ 

ایسےپرشان کن حالات و اوقات میں ہم زمانئہ ماضی کو صرف سوچ بھی لیں تو شاید ڈپریشن سے نکلنے اور اس سے دور رہنے کے لیے ہمارے لیے یہ سوچنا ہی کافی ہو جائے۔ ہم ان پریشان کن حالات و ا وقات میں یہ بھول جاتے ہیں کہ آج ہم جس قدر سہولیات سے گھرے ہوئے ہیں ماضی میں اس کا اندازہ بھی کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ ماضی کے مقابلے میں موجودہ زمانہ کافی زیادہ ہائی ٹیک ہو گیا ہے ۔ سہولیات اور ہماری خواہشات کی تکمیلیت کے ذرائع بہت ہی زائد بڑھ چکے ہیں ۔ خواہشات تو پہلے بھی کم نہیں تھیں اور آج بھی کم نہیں ہیں مگر، ذرائع پہلے کی بنسبت آج کئی گنا زائد بڑھ گئے ہیں۔ پہلے سفر کرنا آج کی بنسبت آسان نہیں ہوتا تھا ،آج گھنٹوں میں نہ صرف صوبوں کا بلکہ ملک کا بھی سفر طئے کر سکتے ہیں ، جو کہ پہلے بالکل بھی ممکن نہیں تھا۔ بلکہ مستقبل میں ایسا ممکن ہو جائے گا تب اس بات کا تصور بھی کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ پہلے ہمیں ایک جگہ سے دوسرے جگہ پہنچنے میں مہینوں اور سالوں تک لگ جاتے تھے اس میں بھی دوران سفر مسافروں کے لٹنے اور جان جانے کا خطرہ الگ ہوتا تھا۔ آج جتنے قسم قسم کے انواع و اقسام میسر ہیں پہلے اس کے دس فیصد بھی غذیات میسر نہ تھے۔ اب تو پورے ملک میں اتنے قسم قسم کے غذیات ہیں کہ اگر روزانہ بھی الگ الگ غذا کا ٹیسٹ کریں تو بھی پوری زندگی میں ہم مکمل قسم کے غذا کا ٹیسٹ حاصل نہیں کر سکتے۔ پہلے کے مقابلے آج ہمارے کپڑے، ہمارے رہائشی مکان، ہماری کام کرنے کی مشینیں ہمارے گھریلو ساز و سامان سب نے بے انتہا ترقی کر لی ہے ۔ پہلے مہینے میں ایک بار بازار لگا کرتا تھا اور وہیں جو سامان مہیا ہو ہم محض اسی بازار سے خرید سکتے تھے مگر آج گھر بیٹھے اپنے کمبل کی گرماہٹ کے اندر سے ہی پوری دنیا کا کوئی بھی سامان ہم بغیر بستر سے اترے ہی منگا اور استعمال کرسکتے ہںے۔ ہماری سیر و تفریح کو بھی آج جتنے آلات و جگہات ہمیں میسر ہیں پہلے ان میں سے کچھ بھی میسر نہ تھا۔ آج ہم اس قدر سہولیات سے گھرے ہوئے ہیں جس کی کوئی انتہا نہیں ۔ اس کے بعد بھی روزانہ لاکھوں کوششیں ہوتی رہتی ہیں کہ کیسے ہمیں اور سہولیات فراہم کی جاسکے۔ مگر ہائے افسوس کہ ان سب کے بعد بھی آج ہم بے حد پریشان ہیں۔ ایک وقت تھا جب ٹی۔ بی۔ اور ہمبریج سے اچھے اچھے لوگوں کی واقفیت بھی نہیں ہوتی تھی ، بلڈ پریشر کو بہت بڑا مرض تصور کیا جاتا تھا ، کینسر کا تو دور دور تک کہیں کوئی نام و نشان نہیں ملتا تھا اور اگر خدا نخواستہ کسی کو اس کی شکایت ہو جاتی تو اسے اس کی موت کا دستک تصور کیا جاتا تھا ۔ آج ہم دیکھیں تو شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جہاں بلڈ پریشر کی شکایت نہ ہو، ہمبریج اور کینسر بھی اب عام ہو گئی ہے ہر محلے میں سینکڑوں مریض اس بیماری کے مل جائیں گے ، سایکائٹرسٹ کیا ہوتا ہے یہ لفظ تو شاید طب کے میدان میں تھا ہی نہیں مگر انڈیا میں آج ہر تیسرے شخص کو اس کی ضرورت ہو گئی ہے ۔

آخر ایسا کیا ہو گیا کہ بے انتہا سہولیات حاصل ہونے کے بعد بھی آج ہم ایک دم سے امراض سے گھر گئے؟ کیا یہ امراض ہمارے خود کے ایجادات نہیں ہیں ؟ کیا ہماری خواہشات بے انتہاسہولیات کے باوجود بھی روز بروز بڑھتی ہی نہیں جا رہی ہے؟جسے حاصل کرنے کے لئے ہم خود کو بیمار کرتے چلے جا رہے ہیں ۔ کیا ہمار اجذبئہ ایثار و توکل، قناعت وصبر ختم نہیں ہو گیا ؟

آج اگر اپنے حالات پر ہم نظر دوڑائیں تو کہیں نہ کہیں ان امراض کی سب سے بڑی وجہ ہماری خواہشات کا بڑھتے جانا اور صبر و قناعت، ایثار و توکل کا ختم ہو جانا ہے۔ اگر ہماری خواہشات کم ہوتی یا ہم میں صبر و قناعت ہوتاتو شاید آج ڈپریشن جو ہمارے درمیان نہایت ہی مہلک مرض بن گیا ہے اپنی اس عروج پر نہ ہوتا ۔ آج ہم خواہشات تو کرتے ہیں مگر جیسے ہی وہ پوری نہیں ہوتی ہم پریشان ہونے لگتے ہیں اور پریشانی کی انتہا جب اپنے عروج کو پہونچ جاتی ہے تو پھر ڈپریشن کا شکار بننے لگتے ہیں، ہمارا ہر اچھی بری چیزوں سے مطلب ختم ہو جاتا ہے ، دنیا ہمیں بوجھ لگنے لگتی ہے اور دنیا کے لئے ہم خود کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔ پھر ایسے ایسے اقدام اٹھاتے ہیں کہ ہمارا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے۔ نہ صرف دنیا سے بلکہ آخرت میں بھی ہم کہیں کے نہیں رہتے۔ ایسے میں سب سے بڑا سوال یہ بنتا ہے کہ کیا ہم واقعی ڈپریشن کے شکار ہیں؟ یا ہم نے ڈپریشن کو صرف ہوّا بنا رکھا ہے۔ ہم آئے روز دیکھتے ہیں ہمارے امتحانات میں ہمیں ناکامی ملتی ہے ہم خود کو ڈپریسڈ سمجھنے اور اور بتانے لگ جاتے ہیں، ملازمت میں ناکامی تو بھی ڈپریسڈ،ملازمت میں اتار چڑھاؤ تو بھی ڈپریسڈ، شادی بیاہ میں من موافق جوڑے کا نہ ملنا تو بھی ڈپریسڈ، دوست و احباب یا رشتہ دار کا نازیبا سلوک تو بھی ڈپریسڈ، پڑوسیوں کے طعنے تو بھی ڈپریسڈغرض کہ ہماری من موافق کوئی بھی چیز ہمیں اگر میسر نہ ہو تو ہم خود کو ڈپریسڈ کر لیتےہیں اور حد تو یہ ہو گئی ہے کہ ہم کسی بھی پریشانی کا مقابلہ کرناہی نہیں چاہتے۔ ہمارا ایسا مزاج بن گیا ہے کہ کوئی بھی چیز اگر ہمارے مخالف ہو تو ہم خود کو ڈپریشن میں لے جانا پسند کرتے ہیں مگر ان حالات کا مقابلہ کرنا نہیں چاہتے ۔

 اگر کوئی ہم سے اعلیٰ ہے خواہ مال و دولت میں ہو یا حسب و نسب میں ، حسن و خوبصورتی میں ہو یا طاقت و شجاعت میں، ہم اس میں بھی خود کو اس کے مد مقابل کر کے احساس کمتری کا شکار ہو کر ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں ۔ ہمیں خود کی کمیوں پر رونا پسند ہوتا ہے مگر ان کمیوں کو دور کرنا نہیں آتا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہم صرف اپنی ناکامی یا اپنی کمیوں کا بہانہ ڈھونڈھ لیں تو ہمارا کام ہو جائے گا ۔یاد رکھیں ایسے ہی لوگوں کے لئے سونو شرما نے بہت ہی خوصورت لائن کہی ہے کہ۔۔" کوئی آدمی تمہارے آنسو پونچھنے نہیں آئے گا ،اپنی تکلیف کسی کو مت بتاؤ، 80 فیصد لوگوں کو تمہاری تکلیف سے کوئی دقت نہیں ہے اور 20 فیصد لوگ خوش ہیں کہ تم کو تکلیف ہے، اپنا رونا کسی کے سامنے مت رو"۔ مگر بہت افسوس کی بات ہے کہ ہمیں دوسروں کو تکالیف بتا بتا کر رونا توپسند ہوتا ہے مگر ان کا مقابلہ کرنا نہیں ۔کبھی کبھی تو ہم تب بھی روتے رہتے ہیں جب رونے کی کوئی وجہ بھی نہیں ہوتی اور یہی کمی ہے کہ آج ہماری زندگیوں سے خوشیاں و سکون ختم ہو چکا ہے ۔ آج بھی اگر ہم ان کمووں کو دور کر لیں تو ہماری خوشیوں سے ماند پڑ چکی زندگی میں رونق آ جائے ، آج بھی ہم خوشحال زندگی جینے لگ جائیں ۔ آج بھی سکون حاصل کرنے کے لئے و ذہنی تناؤ کو دور کرنے کے لئے ہمیں سگریٹ نوشی ، شراب نوشی و دیگر کسی بھی قسم کے نشے کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ میں نے کیں نشے کے عادی لوگوں سے نشے کی وجہ دریافت کی جن میں کچھ تو شوقیہ ملے اور کچھ نے تو اسے ماڈرن زمانے کا فیشن سے بھی تشبیہ دی ۔ ان کے مطابق اگر آپ ان نشہ آور چیزوں کا استعمال نہیں کرتے ہیں تو آپ زمانئہ قدیم کے پرانے سوچ رکھنے والے لوگ میں شمار ہوتے ہیں ۔خیر! دوران گفتگو ان سب میں ایک چیز مجھے کامن ملی کہ جب بھی کوئی نشے کا عادی شخص کسی پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلا کام نشہ کرتا ہے جس سے اسے قلبی سکون حاصل ہوتا ہے ان کے کہنے کے مطابق اگر وہ ایسے وقت میں نشہ نہ کرے تو پاگل ہو جائے ، اسے اس کی ٹینشن دور کرنے سب سے آسان طریقہ یہی ملتاہے کہ وہ نشے میں آ کر کچھ لمحے کے لئے دل کو سکون مہیا کرائے۔ اللہ اکبر! ذرا سوچئے ہم کہاں آ گئے ۔ ہمارے دلوں کا سکون کہاں تھا اور کہاں تلاش کرنے لگے ۔ قرآن کہتا ہے" الا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔" مگر ہم نے سکون کو کہاں تلاش کیا؟ نشہ آور اشیاء میں، پھر ہمیں سکون کیسے ملے گا ؟ ہمار اڈپریشن کیسے جائے گا ؟ 

  آج ہمارے اندر سے قناعت، صبر، توکل اور ایثار کا جذبہ بالکل ہی ختم ہو چکا ہے ۔ ہمیں کسی بھی چیز اور کسی بھی حال میں نہ صبر ہے نہ ہم قناعت کر سکتے ہیں۔ نہ ہی توکل ہے اور نہ ہی ایثار و قربانی کا جذبہ ۔ ہمارے لئے اگر کچھ رہ گیا ہے تو محض اپنے سے اوپر والوں کو دیکھ کر احساس کمتری کا شکار ہونا اورہمہ وقت اپنی خواہشات کی تکمیلیت کے لئے کسی بھی حد سے گزر جانا۔

  پہلے ہم جھونپڑی کے مکان میں بمشکل دو وقت کی روٹی کھا کر دن گزارا کرتے تھے ، صبح سے لے کر شام تک ہمارے والدین مزدوری کر کے چند روپئے اکٹھے کرتے تھے جس سے کسی طرح گھر چل سکتا تھا ، گھر کے پانچ افراد کے لئے ایک ہی ٹوٹی ہوئی سائیکل تھی جس سے ہم کم و بیش 10-10 کیلومیٹر دور کا سفر کیا کرتے تھے ۔ ایک کمرہ وہ بھی ایسا تھا جس کا چھت بارش میں ٹپکتا تھا اور اسی کمرے میں دس افراد زمین پر بستر بچھا کر سویا کرتے تھے ، کھیلنے کو تاڑ کے پیر کا بنا ہوا ہوا لکڑی کا ایک بلا اور کپڑے ٹھونس کر بھری ہوئی گیند ہوتی تھی ۔ لکھنے کو پنسل نہیں تھی تو ایک ہی پنسل کے کئی ٹکڑے کر کے ہم لوگ اس سے لکھاکرتے تھے ، پورے محلے میں چند چاپا کل ہوا کرتے تھے جہاں سے پانی بھر کر ہم پینے کو پانی جمع کرتے تھے ۔ سال میں کسی بھی ایک تہوار کے موقعے سے ہمارے لئے نئے کپڑے آتے تھے ان میں بھی اگر سلائی کے دوران ٹکڑے بچ جائیں تو چھوٹے بچوں کے لئے ان ہی ٹکڑوں کا نیا کپڑا کافی ہوتا تھا۔ مگر پھر بھی ہم ڈپریسڈ یا اس قسم کے کسی بھی لفظ سے نا آشنا تھے۔ 

آج ہمارے پاس خود کا بنگلہ ہے ،تین وقت کا کھانا مع شام کی چائے بھی ہے۔ ہفتے مہینے میں تین چار بار کم از کم باہر کا کھانا بھی ہم با آسانی کھا لیتے ہیں ،8 گھنٹے کی ڈیوٹی ہے وہ بھی کسی آفس یا ایک مخصوص جگہ پر جہاں با آسانی ہمیں 2 گھنٹے آرام کرنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔ گھر کے ہر فرد کے پاس اپنی اپنی موٹرسائیکل ہے ، بسا اوقات کچھ گھروں میں کار بھی ہے تاکہ فیملی کو کہیں بھی جانا ہو تو آسانی ہو ۔ اگر ہمارے پاس کار نہیں بھی ہے تو اتنے روپے تو ضرور ہیں کہ ہم کار بُک کرکے کہیں کا بھی سفر کر سکتے ہیں ۔گھر کے ہر فرد کے لئے الگ الگ کمرہ ہے جہاں بیڈ، صوفے ،المیرا لگی ہوئی ہیں کچھ ہو نہ ہو بیڈ تو ہر کمرے میں ضرور ہے ۔ چاپاکل بمشکل کہیں دکھ جائے تو بہت بڑی بات ہے اور اگر ہے بھی تو اس لئے نہیں کہ ہم وہاں جا کر پانی بھریں اور اپنی ضروریات پوری کریں۔ضروریات پوری کرنے کے لئے تو ٹنکی اور نل نے اپنا ایسا جال بچھایا ہوا ہے کہ ہمیں بیڈ پر سے اٹھنے تک کی ضرورت نہیں ہے ۔ پینے کے لئے آر۔ او۔ کا پانی ہر جگہ دستیاب ہے۔ چاپا کل تو صرف حالت مجبوری کے لئے ہے۔ ہر تہوار پر ہمیں نئے کپڑے ضرور چاہیے اگرکسی وجہ سے کئی مہینوں سے نئے کپڑے نہیں لئے جا سکے ہوں تو بازار میں چلتے وقت اگر کوئی کپڑا پسند آ جائے تو پھر اس کپڑے کا ہمارے جسم کی زینت بننا فرض عین ہے۔ اعلیٰ اعلیٰ قسم کے موبائل وہ بھی سبھی کے پاس الگ الگ موجود ہے جس کی قیمت اب ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہے ۔کیونکہ اب ہمیں صرف اینڈورائڈ نہیں آئی۔ فون ۔کی خواہش ہوتی ہے اور ہم اسے رکھتے بھی ہیں۔ علاوہ ازیں دیگر ہر قسم کی سہولیات بھی ہمیں حاصل ہے مگر پھر بھی ہم ڈپریسڈ ہیں، آخر کیوں؟ 

 جب خدائے تعالیٰ کی عطا کر دہ احسانات کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے ہم اس کا ناشکرا بندہ بنیں گے ۔ اپنی تمام خواہشات کی تکمیلیت کو ہی اپنی زندگی جینے کا اصل مقصد سمجھیں گے ۔ صبر و تحمل سے ہمارا دور دور تک کوئی واسطہ نہ ہوگا ، جب کبھی اپنے نا موافق حالات میں ہمیں صبر سے کام لینا چاہےک تب ہم صبر کا دامن چھوڑ اللہ کا ساتھ حاصل کرنے کے بجائے شیاطین کے صف میں کھڑے ہو ں گے۔ اگر کبھی ہمیں امید سے کچھ کم حاصل ہو تو بجائے قناعت کرنےکے ہم آپس میں لڑنے جھگڑنے اور اپنے رشتوں میں دڑاریں لانے لگیں گے۔ خدا کی ذات پر سے ہمارا توکل اٹھ چکا ہوگا۔ جب کہ خدا نےاپنے نبی کو اس وقت بھی توکل کرنے کا حکم دیا جب 'صلح حدیبیہ' کے وقت معاہدہ ہو رہا ہوتا ہے کہ" اگر میرا آدمی آپ کے پاس جائے تو آپ اسے واپس کر دیں مگر آپ کا کوئی آدمی میرے پاس آئے گا تو ہم اسے واپس نہ کریں گے۔" جذبئہ ایثار و قربانی بالکل ہی نیست و نابود ہو چکا ہوگا، جب تک ہمیں بدلے میں کچھ حاصل نہ ہو ہم کسی کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں ہوں گے ۔ تو ہمیں سکون کیسے میسر ہوگا اور جب سکون میسر نہ ہو تو ہم ڈپریشن کے شکار کیوں کر نہ ہوں گے؟ آج ہمارے جذبئہ ایثار و قربانی کا حال تو یہ ہے کہ کسی کے لئے تو اب بہت دور ہم خود اپنے اعز و اقربا یہاں تک کہ والدین جیسی عظیم المرتبت ہستی کے لئے بھی اگر بدلے میں کچھ ملنے کی امید نہ ہو تو کنارہ کش ہو جاتے ہیں ۔

 میں نے ذاتی طور پر یہ مشاہدہ کیا ہوا ہے کہ وہ ماں باپ جنہوں نے اپنے بچوں کے لئے اپنی تمام زندگی صرف کر دی مگر جب انہیں بچوں کی باری آتی ہے، جب خدا قرآن میں صاف صاف بتا رہا ہوتا ہے "فلا تقل لھما اف "۔ مگر تب اسی والدین کی اولاد انہیں جھڑکنے اور تکالیف دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتی۔ کوئی والدین کے بارے میں کہتا ہے کہ انہوں نے میرے لئے کِیا ہی کیا ہے جو میں ان کی فکر کروں، جس کے لئے انہوں نے کیا ہے وہ سمجھے ۔ کوئی کہتا ہے کہ یہ تو پاگل لوگ ہیں پتہ نہیں کیوں مجھے ہی ایسے ماں باپ ملے۔ وہیں میں نے ایسے بھی گھرانے دیکھے ہیں جہاں ایک ہی مکان میں دو فلور ایک فلور پر بٹاں اور بہو اعلی مکان بنا کر رہ رہے ہیں تو وہیں دوسرے فلور پر اکیلی ماں ایک کم عقل بیٹے جسے ہاں کہو تو ہاں سے زائد کچھ بھی نہ سمجھ سکتا ہو کے ساتھ 80 سال سے زائد کی عمر میں بھی دشوار کن زندگی گزار رہی ہے۔ اپنا اور اس کم عقل بیٹے کا سارا کام وہ خود ہی انجام دیتی ہے۔ مگر ہزار لعنت ہو ایسے بیٹے پر جسے اس بات کا ذرہ برابر بھی افسوس تک نہیں ہے۔جب ہم اپنی ماں کو ایسی جہنم بھری زندگی دے کر خود عیش و عشرت کی زندگی جی رہے ہوں ، جب ہمارے اندر جذبئہ ایثار و قربانی اس ماں باپ کے لئے بھی باقی نہ رہا ہو،تو بھلا ہمیں سکون کہاں اور کیسے حاصل ہوگا؟ 

 آج ہم اپنے آپ کو اعلیٰ بنانے کی کوشش میں اس قدر منہمک ہو گئے ہیں کہ کہ ہمیں دکھاوے اور جھوٹے نام ونمود کی کوشش کا سہار الینا پڑ رہا ہے۔ ہمیں اپنی سادگی بھری زندگی پسند ہی نہیں آتی۔آج اگر ہم تعلیم حاصل کرتے ہیں تو علم حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ نام ونمود و برتری ہی ہمارا مقصد ہو ا کرتی ہے۔ ہر جگہ ہمیں مقابلہ اور بس مقابلہ کی ہی چاہت ہوتی ہے ۔ ہم اگر 20 ہزار کماتے ہیں تو ہماری یہ کوشش نہیں ہوتی کہ اس 20 ہزار سے خوشحال گھرانہ کیسے چلائیں بلکہ ہمیشہ ہر وقت ہمارے ذہن میں یہ بات چل رہی ہوتی ہے کہ ہمارےبغل والا، ہمارے ساتھ والا وہ 30-40 ہزار کیسے کما رہا ہے؟ ۔ہمارے پاس اگر چھوٹی کار ہے تو ہم بجائے اس پر خوش ہونے اور خدا کا شکریہ ادا کرنے کے اس پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اس نے تو فرافری اور بی۔ ایم۔ ڈبلیو۔ لے لی ہے ہم کب تک اسی چھوٹی کار کے ساتھ زندگی گزاریں گے ۔ 25 ہزار کا موبائل ہماری جیب میں پڑا ہوتا ہے مگر آئی۔ فون۔ کی خواہش ہر پل ستا رہی ہوتی ہے ۔ ہمیشہ اپنے احباب و رشتہ دار سے شکایت رہتی ہے کہ میرے ہی احباب و رشتہ دار ایسے کیوں ہیں؟ جبکہ بغل والے کے رشتے دار کے اخلاق تو اتنے اعلیٰ ہیں، یا پھر ہمارے ہی رشتےدار کا ہمارے ساتھ رویہ اچھا کیوں نہیں ہے جب کہ دوسروں پر تو جانیں چھڑکتا ہے۔ غرض کہ ہر جگہ ہم اپنےاوپر کام کرنے کے بجائے صرف دوسروں سے مقابلہ کرکے احساس کمتری کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور نتیجہ ہماری زندگی کا سکون ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتا ہے۔ یہ حقیقت ہے جہاں مقابلہ ہو وہاں سکون مل ہی نہیں سکتا۔  

بچپن میں ہم دوران تعلیم اپنے سبق کے دنوں میں پریشان نہیں ہوا کرتے تھے۔ ہماری پریشانی کی شروعات وہاں ہوتی تھی جب ہمارے امتحانات آتے تھے کیونکہ وہاں ہمارا مقابلہ ہوتا تھا۔ اور مقابلے کی دوڑ میں ہم دن رات کا سکون چھوڑ کر ایک روٹین سے کام کرنے کے بجائے دن رات صرف آگے کیسے نکلنا ہے اسی کوشش میں لگے رہتے تھے ۔نہ ہمیں کھانےکی فکر ہوتی تھی نہ کھیلنے کودنےکی، نہ کسی دوست کے ساتھ وقت گزارنے کی ، نہ گھر والے کے ساتھ ۔ پھر جب امتحان میں اعلیٰ نمبرات نہیں حاصل ہوتے، ہم کسی سے پیچھے رہ جاتے تو یہ چبھن ہمیں ستاتی رہتی ۔ افسوس کہ آج بھی ہمیں جب کہ سبق کے دور کی طرح کی زندگی گزارنی چاہیے تھی، ہم امتحان اور مقابلے کے دور کی طرح ہر وقت مقابلہ مقابلہ اور بس مقابلہ کرتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں ، ہر دم بس بھاگتےہی رہتے ہیں۔ نتیجہ سکون صفر۔ پھر جب ہمیں ناکامی ملتی ہے تو ہماری پریشانی شروع، اور پریشانی جہاں انتہا کو پہونچی ڈپریشن شروع۔ پھر وہی ڈپریشن ہمیں دین و دنیا دونوں جگہ کہیں کا نہیں چھوڑتا ہے۔ 

اگر واقعی ہمیں ڈپریشن سے باہر نکلنا ہے یا پھر ڈپریشن کو کبھی اپنی زندگی کا حصہ نہیں بننے دینا ہے تو ہمیں چاہیے کہ اول تو ہم خدائے وحدہ لاشریک کی ذات پر بھروسہ رکھیں اس سے امید اور اس پر توکل رکھیں۔ اس کے بعد ہم اپنی طرف سے جو بھی کوشش کر سکتے ہوں ضرور اور بے انتہا کوشش کریں مگر ہمیشہ اس بات کو ذہن نشیں رکھیں کہ فیصلہ کرنے والی اور ہمارے حصے میں کچھ بھی خواہ کامیابی ہو یا ناکامی، دینے والی ذات اللہ کی ہے اور اللہ نے جو بھی کچھ ہمارے لئے منتخب کیا ہے بخوشی اس کا استقبال کریں ۔ ضروری نہیں کہ جو ہمیں ظاہری طور پر ناکامی دکھ رہی وہ حقیقتاً ہماری ناکامی ہی ہو، بلکہ اللہ نے ہمارے لئےکیا حسن صورت اختیار کیا ہو وہ اس سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ اسی لئے اگر ہم منشاء ایزدی کے خلاف جائیں گے،اس کے منتخب کئےگئے فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کریں گے تو پھر ہمیں صبر حاصل ہو ہی نہیں سکتا ۔ اگر ہم مرضی مولا کے ساتھ خوش ہو کر اس کے مطابق زندگی گزارنے لگیں گے تو اس کے دوست بنتے چلے جائیں گے اور اولیاء اللہ کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ خدا کے حکم کے مطابق اس کے منتخب کئےگئے ہر فیصلے کوبخوشی قبول کرتے اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔ پھر دونوں جہاں کی کامیابی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ دنیا میں مصائب کیا ہوتے ہیں اس سے انہیں کوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا اور آخرت میں تو اللہ انہیں بہتر اجر دیگا ہی۔

آج ہم نے اپنا رشتہ اللہ سے بھی اور اولیاء اللہ سے بھی کاٹ لیا ہے۔ لہذا نہ ہمیں خدا کے فیصلے پر توکل ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ہمیں اس کے فیصلے پر چلنے کی تلقین کرے ، راہ بتائے تو اس کی بات ہی اچھی لگتی ہے۔ آج ہم اگر پریشان ہوتے ہیں ڈپریسڈ ہوتے ہیں تو مفاد پرست دوست و احباب کا رُخ کرتے ہیں ، جو کہ محض مطلب بھر کی دوستی رکھتے اور اس کا دم بھرتے ہیں ۔ بسا اوقات تو وہ ہماری پریشانیوں کا اپنی ناقص العقل سے کوئی تدبیر بتا تے ہیں یا پھر سب ٹھیک ہو جائے گا کہہ کر ہمیں ہمت دے کر خود کا پلہ جھاڑ لیتے ہیں ۔ کبھی کبھی تووہ بھی ہمیں کھڑی کھوٹی سنانے میں بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔پھر اگر ہم نشہ خور ہوں تو نشہ کر کے غم کو بھولنے اور پریشانی سے نکلنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں یا پھر خوشیاں حاصل کرنے کے لئے بازار و ریسٹورینٹ کا رخ کرتے ہیں اور چند مصنوعی مسکراہٹوں کے ساتھ سیلفیاں سوشل میڈیا پر ڈال کر لائک اور کمنٹ کی تعداد گنتے ہوئے خوش ہو لیتے ہیں۔

ڈپریشن سے بچنے و نکلنے کے لئے ہمیشہ خدا کی ذات پر یقین اور توکل کرنا چاہیے، اپنی خواہشات کو جس قدر ممکن ہو کم سے کم کر دینی چاہیے۔ اگر خدا نخواستہ ہماری خواہشات کبھی پوری نہ بھی ہو تو مسکراتے ہوئے اسے قبول کر لینا چاہیے ، ہر قسم کے رشتے خواہ دوست و احباب ہو یا رشتہ دار بغیر کسی مفاد کے اپنی طاقت کے مطابق اسے نبھانے کی کوشش کرنی چاہیے وہ بھی کسی قسم کی امید کئے بغیر ، اور ان سے اگر کبھی آپ کی امید ٹوٹتی بھی ہو تو بس رضائے الہی سمجھ کر مسکرا کر اسے اسی وقت ذہن و دماغ سے نکال دینا یا کم از کم نکال دینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جب ہم کیر بھی مزاحیہ لطیفے پر ایک بار ہنس لینے کے بعد بار بار نہیں ہنستے تو پھر ایک ہی غم پر ہم بار بار پریشان اور رونا کیوں کریں ؟ جب کبھی بھی ہماری نظر خود سے اعلیٰ لوگوں پر جائے اور ہم احساس کمتری کا شکار ہونے لگیں فی الفور اپنے سے نیچے والے لوگوں پر نظر دورائیں اور اللہ کی خود پر عطا کردہ مہربانیوں کو یاد کر کے اس کا شکریہ ادا کریں ۔ کبھی اگر ہم خود کو اعلیٰ صفات کے ضامن پائیں اور تب ہم میں احساس برتری و کسی کی ناقدری کا جذبہ ابھرے تو فوراً آقائے مدنیﷺ کی وہ راتیں اور ان آنسؤؤں کو یاد کریں جو انہوں سب کچھ حاصل ہوتے ہوئے بھی ہمارے لئے بہائے تھے ۔ دنیا کی فکر و پروا چھوڑ کر صرف سکون کی تلاش کریں۔ دنیا میں آپ کے ہونے یا نا ہونے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ دنیا تب بھی چلتی تھی جب آپ نہیں تھے اور تب بھی چلے جب آپ نہیں ہونگے۔

 دنیا کا مزاج 9 اور 6 کی طرح ہے آپ چاہے کچھ بھی کر لیں ہر کسی کو آپ ہمیشہ خوش نہیں رکھ سکتے،کبھی کسی ایک کے لئے صحیح تو دوسرے کے لئے غلط اور کبھی دوسرے کے لئے صحیح تو پہلے کے لئے غلط ہو جائیں گے۔مرضیِ خدا کو تلاش کریں اور اس کے مطابق چلنے کی کوشش کریں ۔ اللہ دلوں کے حال سے واقف ہے وہ نیت دیکھتا ہے نیت صاف رکھیں ۔ ان شاء اللہ زندگی میں کبھی بھی ڈپریشن و مایوسی آپ کا مقدر نہیں ہوگی ۔

٭٭٭

कोई टिप्पणी नहीं:

एक टिप्पणी भेजें

Hamari ye post aapko kaisi lagi, apni raay comment kar ke hame zarur bataen. Post padhne k lie Shukriya 🌹