زکوۃ کے ٹکڑے اور ہم
عیان ریحانؔ، حاجی پور ، بہار
رابطہ 7277222729
آج کل یہ عام طور پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ ہر ہر محلے ہر ہر گاؤں ہر ہر قصبے میں رمضان کے شروع ہوتے ہی محصل زکوۃ کی جماعت گردش کرنے لگتی ہے اور ہم ان سبھی کو اپنے زکوۃ کی رقم کو انتہائی ٹکڑے میں بانٹ کر دینا شروع کر دیتے ہیں۔ مانگنے والوں میں بعض تو واقعی مستحق زکوۃ ہوتا ہے مگر بعض اس کا مستحق بھی نہیں ہوتا جنہیں ہم اپنی زکوۃ کی رقم دے دیتے ہیں۔ تصدیق کرنے پر اگر واقعی مستحق ہوتا ہے تو اس کی دل آزاری بھی ہو جاتی ہے ، اور کبھی ہم دل آزاری کے خوف سے محصل کی تصدیق نہیں کرتے تو وہ غیر مستحق ہو کر بھی اس کا فائدہ اٹھا کر ہماری زکوۃ کی رقم حاصل کر لیتا ہے۔ اور ہماری زکوۃ ادا بھی نہیں ہوتی۔ خیر! ہر سال جب ہم اتنے بڑے پیمانے پر زکوۃ نکالتے ہیں تو سوال یہ بنتا ہے کہ ہر سال اربوں روپے زکوۃ میں نکلنے کے باوجود بھی ہم ترقی کیوں نہیں کر پاتے ؟ غرباء ہمیشہ غریب ہی کیوں رہ جاتے ہیں؟ اربوں روپے نکلنے کے باوجود بھی ہم تعلیمی شرح میں ہمیشہ پیچھے کیوں رہ جاتے ہیں؟ ترقی ہمارا مستقبل کیوں نہیں بن پاتی ہے؟ کیا ہم ہر سال زکواۃ کی ادائیگی ٹکروں میں صرف اسی لئے کرتے ہیں کہ ہمیں مستحقین کو تا حیات مستحقین ہی بنائے رکھنا ہے؟
الحمد للہ اللہ نے ہم اور آپ کو اتنا دے رکھا ہے یا اگر ہمارے پاس اتنی وسعت نہ بھی ہو تو بھی ہم اور آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ہر گلی ، محلے ، شہر، قصبے میں ایسے متعدد گھرانےہیں جو اکیلے یا دو چار دس لوگوں کی صرف زکوٰۃ کی رقم سے ہی چھوٹے موٹے ادارے با آسانی چلا سکتے ہیں بلکہ متعدد جگہ ایسے چھوٹے موٹےادارے قائم بھی ہیں۔ لیکن ان اداروں کو بھی اپنی اخراجات کی تکمیلیت کے لئے در در بھٹکنا پڑتا ہے کیونکہ ان قریبی اور مستحق چھوٹے اداروں کی امداد بھی ہم نہایت چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں کرتے ہیں۔ کیونکہ ہماری خواہش متعدد اداروں کو اپنی زکواۃ کی رقم دے کر ان کی رسید حاصل کرنے کی ہوتی ہے۔
اگر ان چھوٹے اداروں کی باتیں کریں تو ان کا بھی حال کسی سے چھپا نہیں ہے۔ یہ ایسے ادارے ہوتے ہیں جہاں ہم دوسروں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے مشورے تو دیتے ہیں لیکن جب بات اپنے بچوں کی تعلیم کی ہو تو ہم معیاری ادارے تلاش کرتے ہیں۔ اگر کوئی غلطی سے ہمیں ان چھوٹے اداروں میں داخلے کا مشورہ بھی دیتا ہے تو ہم اسے ایسی کھڑی کھوٹی سناتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ 'میرا بچہ یہیں پڑھے گا؟ میں اپنے بچے کی تعلیم وتربیت اعلیٰ ادارے سے کراؤں گا کہ ایسے ادارے سے کراؤں گا؟ فقیر سمجھ رکھا ہے کیا؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔' نا جانے کتنے ہی تعصبانہ جملے سے ہم سامنے والے سے مخاطب ہوتے ہیں۔
چھوٹے اداروں کے لئے ہماری یہ ذہنیت واقعی ہم پر ہنسنے کے لائق ہی ہے۔ میرا سوال آپ سے ہے کہ اگر یہ چھوٹے ادارے اتنے ہی نا اہل ہیں تو پھر اس کے قائم کرنے کی ضرورت ہی کیوں ہے؟ اگر ضرورت ہے تو یہاں معیاری تعلیم پر توجہ کیوں نہیں ہے؟ اور اگر معیاری تعلیم بھی ہے تو انہیں اعلیٰ ادارے کی طرف گامزن کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟ اور اگر ہمیشہ ان اداروں کو اسی منہج پر قائم رکھنا ہے تو چونکہ چھوٹے ادارے ہیں ان کے اخراجات بھی کم ہوں گے پھر محلے و مضافات کے چند رؤسا و مخیر حضرات اپنے زکوۃ کی رقم سے اس ادارے کے خرچ کی ذمہ داری کیوں نہیں لیتے؟ کیوں ٹکڑے ٹکڑے میں اپنی رقوم خرچ کر کے ان چھوٹے اور ادنیٰ سے اداروں کو بھی دور دراز در در زکواۃ کے لئے سفر کراتے ہیں؟
کیا ہم اپنی رقم یکمشت خرچ کر کے یا چھوٹے چھوٹے گروہ بنا کر چند بچوں کی یا چھوٹے ادارے کی مکمل ذمہ داری اپنے سر لے کر انہیں تعلیم و ترقی کے اس عروج پر نہیں پہونچا سکتے کہ کل کو اسی زکوۃ پر پلنے اور پڑھنے والے بچے علم و عمل کے اس نہج پر پہونچ جائیں کہ پھر انہیں زکوۃ مانگنے کی ضرورت نہ پڑے۔ بلکہ وہ بھی ہماری اور آپ کی طرح اپنی زکوۃ ادا کرنے کے اہل ہو جائیں۔ ہزاروں بچے ایسے ہوتے ہیں جو مالی اسباب کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیمی سفر کو ادھورا چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ کیا ان کی اس نا مکمل تعلیم کے ذمہ دار ہم اور آپ نہیں ہیں؟
بڑے بڑے ادارے تو جب ایک بار ترقی کی راہ ہموار کر لیتے ہیں تو پھر الحمد للہ تنزلی کی طرف نہیں آتے کیونکہ ان کے پھر مختلف و متعدد مضبوط ذرائع بن چکے ہوتے ہیں کہ بحر حال مالی کمی کے شکار تو نہیں ہونے پائیں۔ مگر چھوٹے اداروں کا کیا؟ ہم کیوں نہ اپنے چھوٹے اداروں کو اسی راہ پر گامزن کریں اور اپنی زکوۃ کی رقوم کو ٹکڑے ٹکڑے میں چھینٹنے سے بہتر کسی ایسی جگہ صرف کریں کہ ہر سال کسی کی ترقی، کسی کی غربت سے مالی فراہمی، کسی کی معاشی زندگی کا آغاز، کسی کی خوشگوار ازدواجی زندگی کی شروعات، کسی کی مرض سے مکمل شفاء یابی کے لئے مالی فراہمی، کسی کی تعلیمی رکاوٹ کی دوری ہماری زکوۃ کی رقم سے ہو جائے۔ اگر ہماری خود کی رقم اس قدر نہیں ہے تو دو چار دس لوگ مل کر ایک مشن کی تکمیل میں اپنا رقم صرف کریں۔ ان شاءاللہ تنگی بھی دور ہوگی، اور مسلمانوں کی شرح تعلیم و شرح ترقی میں بھی اضافہ ہوگا۔
***
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें
Hamari ye post aapko kaisi lagi, apni raay comment kar ke hame zarur bataen. Post padhne k lie Shukriya 🌹