حاکم کے فیصلے محض قانون شریعت کے مطابق ہونے چاہئے
از قلم : شاداں حیات مفلحاتی
اللہ تعالی نے انسانوں کی تخلیق کی اور اسے اپنے نازل کردہ شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کا حکم دیا اور اگر زندگی کے کسی معاملہ میں کوئ نزع کی صورت درپیش ہوجاۓ یا کسی قسم کا اختلاف پیدا ہو جائے تو فیصلے کیلۓ کتاب و سنت کی طرف پلٹنے کا حکم دیا- جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :- *فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۠-* (سورہ نساء:۵۹) "پھر اگر کسی بات میں تمہارا اختلاف ہوجائے تواگر اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو تو اس بات کو اللہ اور رسول کی بارگاہ میں پیش کرو۔ یہ بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے"۔ اور رعایا پر بھی لازم ہے کہ وہ شریعت مطہرہ کے مطابق کۓ گۓ فیصلوں کو بلا کسی چوں و چرا کے تسلیم کرلے-
اللہ تعالی نے قرآن کے متعدد آیات میں حاکم کو کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے اور نہ کرنے پر کافر و فاسق بھی کہا ہے جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :- *وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْكَافِرُوْنَ* -(سورہ مائدہ:٤٤) ترجمہ : اور جو کوئی اس کے موافق فیصلہ نہ کرے جو اللہ نے اتارا ہے تو وہی لوگ کافر ہیں۔ دوسرے جگہ ارشاد فرمایا:- *وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّـٰهُ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْفَاسِقُوْنَ-* (سورہ مائدہ :٤٧) ترجمہ :اور جو شخص اس کے موافق حکم نہ کرے جو اللہ نے اتارا ہے تو پھر وہی لوگ نافرمان ہیں۔ اسی لۓ اللہ تعالی نے اپنے انبیاء علیہم السلام کو بھی کتاب و سنت کے مطابق فیصلہ کرنے کی تاکید کی ہے - نبی کریم صلي الله عليه وسلم کو مخاطب کرتے ہوۓ اللہ تعالی نے فرمایا :- *فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوۡکَ فِیۡمَا شَجَرَ بَیۡنَہُمۡ ثُمَّ لَا یَجِدُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیۡتَ وَ یُسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا-* (سورہ نسآء:٦٥) ترجمہ : پس (اے حبیب!) آپ کے رب کی قسم یہ لوگ مسلمان نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ وہ اپنے درمیان واقع ہونے والے ہر اختلاف میں آپ کو حاکم بنالیں پھر اس فیصلہ سے جو آپ صادر فرما دیں اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہ پائیں اور (آپ کے حکم کو) بخوشی پوری فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں- اور داؤد علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوۓ فرمایا :- *يَا دَاوُوْدُ اِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيْفَةً فِى الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِــعِ الْـهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ ۚ اِنَّ الَّـذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ لَـهُـمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِ-*(سورہ ص :٢٦) ترجمہ :اے داؤد! ہم نے تجھے زمین میں بادشاہ بنایا ہے
پس تم لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کیا کرو اور نفس کی خواہش کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا دے گی، بے شک جو اللہ کی راہ سے گمراہ ہوتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اس لیے کہ وہ حساب کے دن کو بھول گئے۔
حاکم کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا :- *إِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ* (سورہ نسآء :-٥٨) ترجمہ: " جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو"- اس آیت کریمہ میں حکام کو بطور خاص عدل و انصاف کا حکم دیا گیا ہے- ایک حدیث میں ہے کہ "حاکم جب تک ظلم نہ کرے اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کر دیتا ہے تو اللہ اسے اس کے نفس کے حوالے کر دیتا ہے"-(سنن ابن ماجہ:٢٣١٢)
اس لۓ عوام کو چاہئے کہ وہ اپنے حاکم کا انتخاب کرتے وقت یہ بات ملحوظ رکھے کہ وہ عالم دین ہو تاکہ وہ اللہ کے اس آیت کے مطابق *وَ اِذَا حَکَمۡتُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ اَنۡ تَحۡکُمُوۡا بِالۡعَدۡلِ* (سورہ نسآء :٥٨) فیصلہ کرے مگر ہم دولت مند, مشہور و معروف اور اعلی نسب والوں کو ترجیح دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود ساختہ قانون اور غیر شرعی اصول کی روشنی میں فیصلہ کرتے ہیں اور حقداروں کا حق مارتے ہیں اور ایسا حاکم خائن ہوتا ہے اور اگر اسے اسی حالت میں موت آگئ تو اس کیلۓ اللہ تعالی نے جنت حرام کردی ہے اللہ کے رسول کا ارشاد ہے :- *مَا مِنْ وَالٍ يَلِي رَعِيَّةً مِنَ الْمُسْلِمِينَ فَيَمُوتُ وَهُوَ غَاشٌّ لَهُمْ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ.* (صحیح بخاری – حدیث نمبر ۷١٥١) ترجمہ :"اگر کوئی شخص مسلمانوں کا حاکم بنایا گیا اور اس نے ان کے معاملہ میں خیانت کی اور اسی حالت میں مرگیا تو اللہ تعالیٰ اس پر جنت کو حرام کردیتا ہے"۔
ایک حدیث میں قاضی کی تین قسمیں بیان کی گئ ہے *عن ابن بريدة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" القضاة ثلاثة: واحد في الجنة، واثنان في النار، فاما الذي في الجنة فرجل عرف الحق فقضى به، ورجل عرف الحق فجار في الحكم فهو في النار، ورجل قضى للناس على جهل فهو في النار"، قال ابو داود: وهذا اصح شيء فيه، يعني حديث ابن بريدة القضاة ثلاثة.*(كِتَاب الْأَقْضِيَةِ، باب فِي الْقَاضِي يُخْطِئُ، حدیث نمبر:٣٥۷٣) ترجمہ :- حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: ”قاضی تین طرح کے ہوتے ہیں: ایک جنتی اور دو جہنمی، رہا جنتی تو وہ ایسا شخص ہو گا، جس نے حق کو جانا اور اسی کے موافق فیصلہ کیا اور وہ شخص جس نے حق کو جانا اور اپنے فیصلے میں ظلم کیا تو وہ جہنمی ہے اور وہ شخص جس نے نادانی سے لوگوں کا فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے“۔
لہذا قاضی و حکام کو چاہئے کہ وہ حق و انصاف کے ساتھ کتاب و سنت کی روشنی میں عوام کے درمیان فیصلہ کریں بلا کسی تردد کے غیر جانبدارانہ فیصلہ نہ سنائیں- نبی صلي الله عليه وسلم نے اپنے دور رسالت میں امت کے سامنے بحیثیت قاضی ایک بہترین اسوہ پیش کیا ہے اسی طرز عمل کو اپناتے ہوۓ حاکم و قاضی کو چاہئے کہ وہ عوام الناس کے مابین فیصلہ کرے.
(قلم میری طاقت کو بھیجے گئے خیالات قلم کار کے اپنے ہیں، ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें
Hamari ye post aapko kaisi lagi, apni raay comment kar ke hame zarur bataen. Post padhne k lie Shukriya 🌹