_-_-_- کچھ ہوا ہے_-_-_-
از قلم : حسیب علی سیالکوٹ پاکستان
اگر اجازت ہو تو جانا میں کچھ زرا سا بیان کردوں؟
اگر یہ ساری زمیں زمانہ نام تیرے جہان کردوں؟
مجھے بتاؤ کے کوئی رنجش یا کچھ کمی گر رہ گئی ہے
اداس فقرے یہ سرد لہجے کہہ دو کے موسمی ہیں
یہ کچھ نا کہنے میں سب سنائی دے رہا ہے
مجھے یوں لگتا ہے کوئی ہم کو بھی دوہائی دے رہا ہے
گزر کے جس ہوں گلی سے آیا جس زمین کو دھکیلا میں نے
کیوں لگ رہا ہے گلی نہیں ہے وہاں پہ کوئی زمیں نہیں ہے
اے میری جاناں مجھے بتاؤ یہ روح میری کیون ڈر رہی ہے
یہ کس نا آکر دبوچ ڈالا میرے خواب کے پنچھیوں کو
یہ کس نے فلک سمیٹ کر کے ہمیں زمیں پہ پھینک مارا
اُران بھرنا کیوں جرم بنتا جارہا عجب سناٹا سا چھا رہا ہے
اگر تمہیں کچھ نہیں ہے کہنا نہیں ہیں اب شکائتیں بھی
کہاں ہے شوقِ وصال اپنا کہاں ہے لمس، چاہتیں بھی ؟
ہوا میں آہیں ہیں دل کی اپنے آس میری کہہ رہی ہے کچھ ہوا ہے
مجھے یہ دھڑکن یہ آنکھیں میری کہہ رہی ہیں کے کچھ ہوا ہے
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें
Hamari ye post aapko kaisi lagi, apni raay comment kar ke hame zarur bataen. Post padhne k lie Shukriya 🌹